اسلام آباد (اردو ٹائمز) پاکستان کے خلاف سازش میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں
پاکستان کے خلاف سازش میں ملوث افراد کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں فیض حمید پر چارج شیٹ ’عمران خان کے لیے پیغام ہے کہ کوئی رعایت نہیں ہوگی انٹر سروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کورٹ مارشل کی کارروائی میں باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی فوج کے ترجمان ادارے (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف چار ماہ قبل 12 اگست کو کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔ فیض حمید کو کورٹ مارشل کی کارروائی میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچانے اور اختیارات کا غلط استعمال کرکے متعدد افراد کو نقصان پہنچانے کے الزامات کا سامنا ہے۔ کورٹ مارشل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق واقعات میں بھی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ سے علیحدہ تفتیش ہو رہی ہے۔ آئی ایس پی آر نے واضح کیا ہے کہ اس میں نو مئی 2023 سے جڑے واقعات کی تفتیش بھی شامل ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ان واقعات میں مذموم سیاسی عناصر سے ملی بھگت کی بھی تفتیش ہو رہی ہے۔ کورٹ مارشل کے دوران فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں۔ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر اسلام آباد میں زمینوں پر قبضے سے متعلق ایک درخواست وزارت دفاع کو دی گئی تھی جس پر باقاعدہ کارروائی شروع کی گئی۔ اس کیس میں فیض حمید پر الزام تھا کہ انہوں نے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کو اغوا کیا تھا۔ بعد ازاں ان پر دہشت گردی کا کیس بنا دیا گیا۔ یہ اطلاعات موجود ہیں کہ فیض حمید یہ اراضی اپنے بھائی کے نام کرنے کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک پر دباؤ ڈال رہے تھے۔
اسلام آباد کی ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کنور معیز نے نومبر 2023 میں سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا تھا کہ مئی 2017 میں جنرل فیض حمید کی ایما پر ٹاپ سٹی کے دفتر اور اُن کی رہائش پر آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے چھاپہ مارا تھا۔ فیض حمید سے اب نو مئی 2023 کے دن فوجی تنصیبات پر مبینہ حملوں اور پرتشدد واقعات میں ملوث کی تفتیش بھی ہو رہی ہے ,سازش میں ملوث تمام کرداروں کو آئین پاکستان اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک پہنچایا جائےآئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید نے میاں علی اشفاق کو اپنا وکیل مقرر کر دیا ہےنو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے سو سے زائد کارکنوں کے خلاف مقدمات کی سماعت شروع کی گئی جو زیرالتوا ہیں۔اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان ان تمام الزامات سے انکار کرتے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی نے نو مئی کو فوجی تنصیبات پر منظم حملے کیے۔تاہم فوج اور حکومت کی جانب سے تحریک انصاف پر ان واقعات کی مںصوبہ بندی اور حملوں کا بالواسطہ یا براہِ راست الزام عائد کیا جاتا ہے۔نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کے کئی رہنما اور کارکن گرفتار ہوئے اور کئی رہنماؤں نے پارٹی سے علیحدگی بھی اختیار کی۔واضح رہے کہ اگست میں پاکستان کی فوج نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو تحویل میں لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔فوج کے اس اعلان کے ایک ہفتے بعد عدالت میں پیشی کے موقعے پر پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ’’جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا سارا ڈرامہ مجھے فوجی عدالت لے جانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔فیض حمید کو میرے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘بعد ازاں فوج نے اگست میں ہی فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران مزید تین سابق فوجی افسران کو تحویل میں لینے کا اعلان کیا تھا۔اس وقت آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ ان تین ریٹائرڈ افسران کو فوج کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا گیا ہے۔ حراست میں لیے گئے افراد میں چکوال سے تعلق رکھنے والے بریگیڈیئر نعیم اور بریگیڈیئر غفار سمیت کرنل ریٹائرڈ عاصم شامل ہیں۔جی ایچ کیو سمیت فوجی تنصیبات پر حملے،شہدائےوطن کی یادگارو ں کی بے حرمتی اور حساس مقامات کو نذر آتش کرنے کی مذموم سازش کی منصوبہ بندی کئی مہینوں سے کی جا رہی تھی۔اس کے ماسٹر مائینڈز وہی ہیں جنہوں نے فوج کے خلاف بیانیہ بنایا، لوگوں کی ذہن سازی کی اور انقلاب کا جھوٹا نعرہ لگوا کر نوجوانوں کو بغاوت پر اکسایا۔ سازش کے ذمہ داروں منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو ہر گز معاف نہیں کیا جائے۔ احتساب کا عمل خود فوج سے شروع کیا گیا ہےفوج جو دفاع وطن کی محافظ ہے کی تنصیبات اور حساس عمارتوں پر حملوں اور شہداء کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے والے عناصر معافی کے قابل نہیں انکوائری اور سفارشات کی روشنی میں ایک لیفٹیننٹ جنرل سمیت تین فوجی افسروں کو برطرف کیا گیا جبکہ تین میجر جنرلز اور سات بریگیڈئیرز سمیت 15 افسروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی گئی ہے جو متاثرہ تنصیبات اور مقامات کی سکیورٹی یقینی بنانے میں ناکام رہے پاکستان کو بڑا خطرہ اندرونی انتشار سے ہے اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ بیرونی یلغار کا راستہ ہموار کرے گا۔ اب تک کی تحقیقات میں بہت سے شواہد مل چکے ہیں اور مل رہے ہیں, ایک سیاسی جماعت اپنے لوگوں کو اپنی فوج پر حملہ آور ہونے کا کہے گی۔ یہ سوچا بھی نہیں تھا۔9مئی کو جس طرح حملے کئے گئے ان کا مقصد فوج کو اشتعال دلا کر فوری ردعمل کیلئے مجبور کرنا تھاتاکہ عوام کو اس کے مقابلہ میں لایا جا سکے مگر فوج نے تحمل سے کام لے کر یہ گھنائونی سازش ناکام بنا دی۔
,یاد رہے کہ موجودہ انتشار پسند اپوزیشن اپنی ملک دشمنی کی وجہ سے عوام میں اپنی اہمیت اور حیثیت کھو چکی ہے اور خصوصاً اس موقع پر جب افواج پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دہشت گردی کامقابلہ کرنے کے لیے عوامی اور اخلاقی مدد کی ضرورت بھی ہو،تو اس موقع پرفوج مخالف بیانیہ عوام کے سامنے ا یک سیاسی پارٹی کے عزائم کو بُری طرح سے بے نقاب کر گیا ہے۔ افسوس اُن محب وطن پاکستانی بہن بھائیوں پر بھی ہے جو سادہ لوح ہیں اور شر پسند عناصر کے کہنے پر اپنی ہی فوج کے خلاف قلم،زبان ہاتھ اورہتھیار کااستعمال کرتے ہیں جیسا کہ اب عمران خان نے 9مئی کے واقعات کی ساری ذمہ داری اپنے کارکنوں پر ڈال دی ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے۔یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ ماضی میں پاک فوج اور عوام نے ملک میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے اور دونوں فریقوں کے اتحادنے مل کر ہمیشہ دشمنوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا ہے۔ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ہمارا دشمن اپنے تقریباًسارے اہداف پورے کر چکا ہے۔ہماری معیشت تباہ حال،عوام جاہل،سیاسی قیادت بکاؤ مال،مذہبی رہنما امداد کے بھوکے۔ اب آخری ہدف پاک فوج ہے جس کو ناکام کرنے پر تیزی سے عمل جاری ہے۔بد قسمتی سے اس عمل میں بیرونی قوتوں کے ساتھ ساتھ ملکی اندرونی قوتیں بھی شامل ہیں جو ہر حال میں ملک میں بدامنی پھیلا کر اپنے لیے اقتدار اور تحفظ کے راستے تلاش کرنے کے چکر میں ہیں۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت اپنی فوج کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ پاکستانی قوم ماضی میں ملک میں امن قائم کرنے کے لیے فوج کی طرف سے دی جانے والی بے شمارجانی قربانیوں کا علم رکھتی ہے اور اس بات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ مضبوط پاک فوج کی موجودگی سے ہی پاکستان قائم ہےوزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی ناپاک کوشش اور پاکستان مخالف سازش میں ملوث افراد کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا اور اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا، اسی پیمانے پر ہم آگے چلیں گے، معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ غیر ملکی ترسیلات زر میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیراعظم نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ’سول نافرمانی‘ کی کال کو سب سے بڑی پاکستان دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے باوجود ہماری ترسیلات زر بڑھی ہیں۔دوسری طرف سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے بانی پاکستان تحریک انصاف کی نومئی کے واقعات کی جوڈیشل تحقیقات کی درخواست باضابطہ سماعت کے لیے منظور کر لیآئینی بینچ نے نو مئی کی جوڈیشل تحقیقات کے لیے عمران خان کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کر دیے۔ عدالت نے رجسٹرار آٖفس کو درخواست پر نمبر لگاکر دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔ عمران خان کی جانب سے وکیل حامد خان عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور کہا کہ ’ڈیڑھ سال ہوچکا ہے، پتہ تو کرالیں کہ نو مئی کو ہوا کیا تھا، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا لگا ہوا ہے، احتجاج کرنے پر فوج طلب کرلی جاتی ہے۔‘ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’مارشل لا میں وہ خود آتے ہیں طلب نہیں کیے جاتے۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ فوج تو آرٹیکل 245 کے تحت طلب ہوتی ہے، اگر آپ اسے مارشل لا کہتے ہیں تو پھر آرٹیکل 245 کو بھی چیلنج کریں۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی حامد خان کے دلائل پر ریمارکس دیے کہ ’آپ مارشل لا کہہ کرکے سوئپنگ سٹیٹمنٹ دے رہے ہیں، کیا کسی اتھارٹی کا کوئی ایسا حکم موجود ہے جسے آپ چیلنج کر رہے ہیں۔‘ حامد خان نے کہا کہ ’نو مئی کے بعد سینکڑوں ایف آئی آرز ہوئیں، ایک پارٹی کو دیوار سے لگا دیا گیا۔‘ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا؟‘ حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ کسی صوبے کا نہیں پورے ملک کا معاملہ ہے، اسی لیے سپریم کورٹ آئے، رجسٹرار آفس اعتراض لگا رہا ہے کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہی نہیں۔‘ جسٹس امین الدین نے کہا کہ ’آپ ٹھوس وجہ بتائیں، بادی النظر میں تو رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور نہیں ہونے چاہییں۔‘ حامد خان نے جواباً کہا کہ ’آپ اعتراضات دور کرکے میرٹ پر سنیں تو میں عدالت کو مطمئن کروں گا۔‘ عدالت نے رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کرتے ہوئے کہا کہ ’کیس دوبارہ لگنے پر آپ کو ہمیں اٹھائے گئے سوالات پر مطمئن کرنا ہو گا۔‘ 25 مئی 2023 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان نے نو مئی سانحہ کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ نو مئی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جبری علیحدگیوں کو غیر آئینی قرار دے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ مفاد عامہ کا معاملہ نہ ہونے کا اعتراض لگایا تھا۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کا چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کے قومی اسمبلی میں خطاب پر ردعمل دیتے ہوئےکہناہے کہ سانحہ 9 مئی کے تمام ثبوت موجود ہیں، تحریک انصاف کی پوری قیادت سانحہ 9 مئی میں ملوث ہے۔ 9 مئی کو دھول اڑانے والے آج دھول بٹھانے کی باتیں کر رہے ہیں، تحریک انتشار گولی چلنے کا جھوٹا بیانیہ بنا رہی ہے۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ گولی چلی ہے تو ثبوت سامنے کیوں نہیں لاتے؟، دوڑ کیوں لگائی؟، موقع سے بھاگنے والے بہانے بنا رہے ہیں۔غلیلوں، بنٹوں، پتھروں، اسٹین گنز اور آتشیں اسلحہ سے لیس شرپسندوں نے 26 نومبر کو وفاق پر چڑھائی کی، پولیس اور رینجرز کے جوانوں کو شہید اور زخمی کیا، اس نقصان کا مداوا کون کرے گا؟عطا اللہ تارڑ نے کا کہنا تھا کہ شہید جوانوں کا خون کس کے ہاتھوں پر تلاش کریں؟ تحریک انصاف کے پاس گولی چلنے کا کوئی ایک ثبوت ہے تو سامنے لائے، پرتشدد سیاست اور پرتشدد احتجاج پی ٹی آئی کا وطیرہ ہے، پی ٹی آئی اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات کا جواب دے، الزامات لگا کر ان سے منہ مت پھیریں۔واضح رہے کہ آج قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ 9 مئی کی دھول کو بیٹھنا چاہیے، ایوان سے انصاف لینا چاہتے ہیں، ایوان ہمیں انصاف دے، دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا تھا کہ آپ کہتے ہیں گولی نہیں چلی، بندے مرے ہیں، ہم اپنے خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ چکے ہیں، ہم پختون کارڈ نہیں کھیلتے لیکن ہر پختون باپ نے اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھایا ہے۔بیرسٹر گوہر نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ پختونوں میں ایک گولی چلتی ہے تو نسلیں اسے یاد رکھتی ہیں، اگر آپ صرف ان لوگوں کا مداوا کردیتے، پہلے بھی تو ایسا ہوا ہے، آفتاب شیرپاؤ کے دور میں نفاذ شریعت کی تحریک میں گولی چلی، 8 بندے مرے، پرچہ درج ہوا، سب کے گھروں میں جاکر معافی مانگی گئی، سب نے کہا ہم نے معاف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیا، خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت ہے مگر ساری عوام تو تحریک انصاف کی نہیں ہے، ساری اقوام اور ہر مذہب کا بندہ وہاں رہتا ہے، ہر سیاسی جماعت کے لوگ موجود ہیں، کیا وہاں کی حکومت ان لوگوں پر گولیاں چلائے؟ ہم نے تو ایسا نہیں کیا، ہم دو الیکشن ہارے مگر آپ کی طرح دھاندلی نہیں کی۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی جانب سے 24 نومبر کو پشاور سے اسلام آباد کے لیے احتجاجی مارچ کے شرکا کو 26 نومبر کی شب وفاقی دارالحکومت میں پولیس اور فورسز کے اہلکاروں سے جھڑپ کے بعد شہر اقتدار سے نکال دیا گیا تھا، اس کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں نے حکومت پر مظاہرین کے ’قتل عام‘ کا الزام لگایا تھا، تاہم حکومت ان الزامات سے انکار کرتی آئی ہے۔وفاقی حکومت کے علاوہ آئی جی اسلام آباد، آر پی او راولپنڈی نے پی ٹی آئی مظاہرین کے تشدد سے 2 پولیس اہلکار شہید اور سیکڑوں اہلکاروں کے زخمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش کی تھیں، سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہاکہ 9 مئی کی دھول کو بیٹھنا چاہیے، ایوان سے انصاف لینا چاہتے ہیں، ایوان ہمیں انصاف دے، دوبارہ سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ کیا جائے۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر، وزیر دفاع خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ آپ کہتے ہیں گولی نہیں چلی، بندے مرے ہیں، ہم اپنے خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ چکے ہیں، ہم پختون کارڈ نہیں کھیلتے لیکن ہر پختون باپ نے اپنے بیٹے کا جنازہ اٹھایا ہے۔بیرسٹر گوہر نے خواجہ آصف کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ پختونوں میں ایک گولی چلتی ہے تو نسلیں اسے یاد رکھتی ہیں، اگر آپ صرف ان لوگوں کا مداوا کردیتے، پہلے بھی تو ایسا ہوا ہے، آفتاب شیرپاؤ کے دور میں نفاذ شریعت کی تحریک میں گولی چلی، 8 بندے مرے، پرچہ درج ہوا، سب کے گھروں میں جاکر معافی مانگی گئی، سب نے کہا ہم نے معاف کیا۔انہوں نے حکومتی بینچز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدلہ لینے کا وقت نہیں تھا لیکن آپ بھی پرچہ درج کرانے کا تو کہہ دیتے، کیس کی تحقیقات کا تو کہہ دیتے، ریکارڈ تو دے جاتے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دیا، خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت ہے مگر ساری عوام تو تحریک انصاف کی نہیں ہے، ساری اقوام اور ہر مذہب کا بندہ وہاں رہتا ہے، ہر سیاسی جماعت کے لوگ موجود ہیں، کیا وہاں کی حکومت ان لوگوں پر گولیاں چلائے؟ ہم نے تو ایسا نہیں کیا، ہم دو الیکشن ہارے مگر آپ کی طرح دھاندلی نہیں کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے ڈپٹی اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ ایوان صرف سوگ نہ منائے، اپنے آپ کو منوائے، عمران خان نے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی ہے مگر یہ سمجھتے ہیں کمیٹی بنانا کمزوری کی علامت ہے، مگر یہ ہماری کمزوری نہیں، ہم چاہتے ہیں ایوان پر کوئی تیسری قوت قابض نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسپیکر صاحب، ہم چاہتے ہیں کہ آپ کردار ادا کریں، یہ ایوان آج تک اپنی بات نہیں منوا سکا، یہ ایوان اپنے ارکان اور ان کے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکا، اگر یہاں بولنے اور دکھانے پر پابندی ہے تو ہم اپنا وقت ایسے ہی ضائع کر رہے ہیں؟ قوم کے ایک دن پر 6، 6 کروڑ روپے ایسے ہی لگا رہے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم نے کمیٹی اس لیے بنائی ہے کہ اسے کمزوری نہ سمجھا جائے بلکہ کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ جتنی غلطیاں ہوئی ہیں ان کا ازالہ کرلیا جائے۔ اب بہت ہوگیا، 9 مئی کی دھول اب بیٹھنی چاہیے، اگر حقیقت کو نہیں دیکھتے اور کمیشن نہیں بناتے تو اس دھول کو بٹھائیں، لیکن سب سے پہلے ہمارا مطالبہ ہے کہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد آنے والے کارکن پرامن تھے، میں اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہوں کہ ان میں سے کسی کے پاس اسلحہ موجود تھا، ان میں سے کسی کے پاس اسلحہ موجود نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے رکھوالے، ووٹرز اور سپورٹرز سب عام پاکستانی ہیں، ان کے پاس نہ کوئی اسلحہ ہے اور نہ کوئی گوریلا فورس ہے، آپ وڈیوز دیکھ لیں مظاہرین میں سے کسی کے پاس آپ کو وہ اسلحہ نظر نہیں آئے گا جس سے کہا جارہا رہے کہ فائرنگ ہوئی ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر گولی چلی ہے تو ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے، 2014 میں بھی گولی چلی مگر کچھ پتا نہیں چلا، 2024 میں گولی چلی مگر اسے دبایا گیا، کتنے بڑے لوگ ہم نے گنوا دیے، کمیشن بنتے رہے، مگر کوئی رپورٹ نہیں آئی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 45 سال بعد سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ انہیں انصاف نہیں ملا، اب بھی وقت ہے کہ ہمارے لوگوں کو انصاف ملنا چاہیے، یہ انصاف ہم اس ایوان کے ذریعے لینا چاہتے ہیں، ہمیں مجبور نہ کریں کہ ہم دوبارہ سڑکوں پر آئیں، یہ ایوان ہمیں انصاف مہیا کرے۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان کو ایوان میں خوش آمدید کرتے ہوئے کہا کہ اچھا ہوا کہ انہوں پارلیمانی جمہوریت کے حسن میں اضافہ کرتے ہوئے لشکر کشی چھوڑ کر پارلیمان میں آنے کو ترجیح دی اور یہاں پر بات کرنا شروع کی۔عوام نے ہمیں مینڈیٹ بھی اسی چیز کا دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی بات سنیں اور سمجھائیں، یہاں بات زیادہ بہتر طریقے سے پہنچتی ہے کیونکہ باہر تو دونوں طرف سے غلیلیں چل رہی ہوتی ہیں اور بہت کچھ ہورہا ہوتا ہے اور یہاں ہم منطق سے بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ شاید نیت دنوں کی یہی ہوتی ہے کہ پاکستان آگے بڑھے، پاکستان کے عوام کا بھلا ہو، پاکستان ترقی کرے، خوشحالی میں جائے اور اس میں ظاہر ہے کبھی اختلاف ہوتا ہے اور کبھی اتفاق ہوجاتا ہے، میری یہ دعا ہے کہ زیادہ باتوں پر اتفاق ہوا کرے۔ وزیر قانون نے اپوزیشن لیڈر کی تصحیح کرتے ہوئے کہاکہ مہنگائی اور دیگر انڈیکس حکومتی فریم ورک میں تیار نہیں ہوتے، آپ ہی کی حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر اسٹیٹ بینک کو ری اسٹرکچر کیا اور مکمل خودمختاری دے دی، اب یہ ساری چیزیں اسی فریم ورک کے تحت ہوئی ہیں اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح نیچے گئی ہے اور ایک ہندسے میں آئی ہے تو شرح سود بھی آج 23 فیصد سے 15 فیصد پر آگئی ہے اور ماہرین کا خیال ہے کہ یہ مزید نیچے آئے گا۔۔واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جنرل (ر) فیض حمید اور بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو پارٹنر ان کرائم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی سابق وزیر اعظم کے خلاف بھی چارج شیٹ ہے، شہادتیں سامنے آئیں تو فیض حمید کے ٹرائل کے اثرات سجے کھبے جائیں گے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بانی پی ٹی آئی اور فیض حمید پر 10 سالہ اقتدار اورملک میں صدارتی نظام لانے کی منصوبہ بندی کاالزام عائد کردیا، انہوں نے کہا کہ سازشیں ناکام ہونے پر سانحہ 9 مئی کیاگیا، عمران خان اور جنرل فیض حمید 5 سے 6 سال حصے دار تھے۔ بانی پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کا مرکزی کردار جنرل فیض تھے، جنرل فیض اور بانی پی ٹی آئی کی پارٹنرشپ 2018 سے پہلے کی ہے، یہ پارٹنرشپ 9 مئی اور اس کے بعد بھی چلتی رہی، ثبوت اور شواہد سے پچھلے 6 سال کی پارٹنرشپ ثابت ہو جائے گی۔بانی پی ٹی آئی کو کس طرح اقتدار میں لایا گا، کس طرح آر ٹی ایس بٹھایا گیا، کس طرح پی ٹی آئی کو 2018 کے انتخابات میں ہر طرح امداد دی گئی، پی ٹی آئی کے دور میں مخالفین کو قید کیا گیا ، جعلی مقدمے بنائی گئے، لوٹ مار کی گئی، بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ نے بڑے بڑے بزنس ٹائیکون کے ساتھ مل کر کرپشن کی۔ پی ٹی آئی کے دور میں سینیٹ انتخابات کے پیچھے یہی 2 سے 3 کردار نظر آئیں گے،انہوں نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی کے ملٹری ٹرائل سے متعلق قانون فیصلہ کرے گا،بانی پی ٹی آئی کے دور میں کئی لوگوں کا ملٹری ٹرائل ہوا؟اس سوال پر کہ جنرل فیض کے ملٹری ٹرائل سے اثرات جنرل باجوہ تک بھی پہنچیں گے ؟ وزیر دفاع نے کہا کہ شہادتیں سامنے آئیں تو لازمی طور پر کچھ نہ کچھ اثرات سجے کھبے جائیں گے۔انہوں نے کہاکہ ایک صفحہ برقرار ہے یا پھٹ گیا ہوا ہے نہیں معلوم، انہوں نے کہاکہ پی ٹی آئی نے 12 لوگوں کی شہادتوں کے ثبوت اسمبلی میں پیش نہیں کیے، علی امین گنڈاپور کے گارڈز اپنے بندے مار کر اس کا ملبہ پولیس اور رینجرز پر ڈال رہے ہیں،یہ رینجرز اور پولیس کے شہدا کی بات کیوں نہیں کرتے؟ کیا وہ پاکستانی نہیں ؟۔سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی امید ظاہرکردی جبکہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ کو فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانیں اوران کا نظام جانے، عمران خان ملٹری کورٹ میں نہیں جائیں گے۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ پی ٹی آئی کی 5 رکنی کمیٹی کے پاس مذاکرات کا مینڈیٹ ہے، جو بھی ہمارے ساتھ مزاکرات کرنا چاہے وہ رابطہ کرسکتا ہے۔ حکومت پہلے بھی کوئی قابل عمل چیز لے کر آتی تو ہم اس پر بات کرنے کو تیار تھے، اب بھی تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے اندر تمام پارلیمانی پارٹیوں سے رابطہ ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ فیض حمید کے خلاف چارج شیٹ فوج جانے ان کا اندرونی نظام جانے، عمران خان ملٹری کورٹ میں نہیں جائیں گے۔صاحبزادہ حامد رضا نے پیسوں اور رشوت کی سیاست کی بنیاد ڈالنے والوں کے خلاف کارروائی کامطالبہ کردیا، انہوں نے سول نافرمانی تحریک کی سوچ سے بڑھ کرکامیابی کادعویٰ کردیادریں اثنا، اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ خواجہ آصف کے پاس ذاتی حملوں کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی، حکومت نے گولی چلانے کے سوال پر کوئی جواب نہیں دیا، ہمارے شہدا کا خون شہباز شریف پر ہے اور وہی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ دار ہیں۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ بانی پی ٹی آئی ، شاہ محمود قریشی اور دیگر رہنماؤں کو رہا جبکہ 9 مئی اور 24 نومبر کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔عمر ایوب نے دعویٰ کیا کہ ہمارے 12 کارکن جاں بحق ہوئے جبکہ 200 سے زائد لاپتہ ہیں، نیٹو فورسز کی جانب سے دیے گئے ہتھیار ڈی چوک پر استعمال ہوئے، ہمارے پی ٹی آئی کارکنان کے پاس کھانا پانی سب موجود تھا، شیلنگ اور فائرنگ کے دوران کھانا دینا ممکن نہیں تھا۔ بشریٰ بی بی ، علی امین گنڈا پور اور مجھ سمیت سب پر کئی بار جان لیوا حملے ہوئے، ہم لوگ ڈی چوک خالی ہونے کے بعد یہاں سے نکلے تھے۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تھا، تاہم اس احتجاج کے لیے وفاقی حکومت یا اسلام آباد کی انتظامیہ سے اجازت حاصل نہیں کی تھی۔ تاجروں نے اس حوالے سے عدالت سے رجوع کیا تھا، اس پر عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کرکے انہیں بتائیں کہ اجازت کے بغیر اسلام آباد میں احتجاج نہیں کیا جاسکتا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح احکام کے باوجود پی ٹی آئی نے ڈی چوک تک احتجاجی مارچ کیا، اس پر تاجروں نے توہین عدالت کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں بدھ کو سماعت کے دوران ایک موقع پر سیکریٹری داخلہ نے تفصیلی رپورٹس جمع کروانے کے لیے مزید وقت دینے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ رپورٹس میں ایسا کیا ہے جو آپ وقت مانگ رہے ہیں؟ ہمارا بڑا سادہ سا حکم تھا کہ آپ امن و امان کو بحال رکھیں، مظاہرین اور شہریوں کے حقوق متاثر نہ ہوں۔عدالت نے ریاستی وکیل کو رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کرتے ہوئے مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔اکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 24 نومبر کے احتجاج پر تاجروں کی توہین عدالت کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی
وفاقی سیکریٹری داخلہ کیپٹن (ر) خرم علی آغا نے پی ٹی آئی کے احتجاج کے خلاف توہین عدالت کیس میں جواب جمع کرا دیا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی ناپاک کوشش اور پاکستان مخالف سازش میں ملوث افراد کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا اور اگر کوئی بے گناہ ہے تو اسے کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا، اسی پیمانے پر ہم آگے چلیں گے، معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ غیر ملکی ترسیلات زر میں بھی پچھلے سال کے مقابلے میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، یہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیراعظم نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ’سول نافرمانی‘ کی کال کو سب سے بڑی پاکستان دشمنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے باوجود ہماری ترسیلات زر بڑھی ہیں۔