آڈیو لیکس کمیشن کیس کی سماعت آج حکومت کا چیف جسٹس سمیت بینچ پر اعتراض
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں آڈیولیک کمیشن کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے بینچ کے 3 ممبران پر اعتراض کرتے ہوئے نیا بینچ بنانےکی استدعا کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے کمیشن کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے آج31 مئی کی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے تھے۔وفاقی حکومت نے متفرق درخواست آڈیولیک کمیشن کے خلاف درخواستوں کے مقدمے میں جمع کرائی ہے۔وفاقی حکومت کی درخواست میں بینچ کے 3 ممبران پر اعتراض کرتے ہوئے استدعا کی گئی ہےکہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر آڈیو لیک کیس نہ سنیں، تینوں معزز ججز پانچ رکنی لارجر بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیں۔ درخواست میں کہا گیا ہےکہ 26 مئی کو سماعت میں چیف جسٹس پر اٹھائےگئے اعتراض کو پذیرائی نہیں دی گئی، انکوائری کمیشن کے سامنے ایک آڈیو چیف جسٹس کی خوش دامن سے متعلق ہے، عدالتی فیصلوں اور کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق جج اپنے رشتہ دارکا مقدمہ نہیں سن سکتا، ارسلان افتخار کیس میں چیف جسٹس افتخارچوہدری نے اعتراض پر خودکو بینچ سے الگ کرلیا تھا، مبینہ آڈیو لیک جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سے بھی متعلق ہیں۔ وفاقی حکومت کا موقف ہےکہ چیف جسٹس پاکستان کی خوش دامن سے متعلق بھی مبینہ آڈیو آچکی ہے اس لیے چیف جسٹس خود کو آڈیو لیک کمیشن کیس کے بینچ سے الگ کرلیں۔ خیال رہے کہ آڈیو لیکس کے معاملے پر وفاقی حکومت نے 3 رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا تھا، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم کمیشن میں بلوچستان ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شامل ہیں۔ آڈیو لیکس تحقیقات: حکومت نے جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن تشکیل دیدیا کمیشن کو جوڈیشری کے حوالے سے لیک ہونے والی آڈیوز پر تحقیقات کرنا ہیں، یہ آڈیو لیکس درست ہیں یا من گھڑت،کمیشن تحقیقات کرےگا۔ کمیشن کو اپنی رپورٹ 30 دن کے اندر وفاقی حکومت کو پیش کرنا ہے، وکیل اور صحافی کے درمیان بات چیت کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، سابق چیف جسٹس اور وکیل کی آڈیو لیک کی بھی تحقیقات ہوگی، کمیشن سوشل میڈیا پر لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے داماد کی عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کے الزامات کی آڈیو لیک کی تحقیقات کرےگا،کمیشن چیف جسٹس کی ساس اور ان کی دوست کی مبینہ آڈیو لیک کی تحقیقات کرے گا۔ یاد رہےکہ27 مئی ، 2023 کومبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکمنامے کی روشنی میں کارروائی روک دی تھی ۔ جوڈیشل کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی کمیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز عامر فاروق اور نعیم افغان کمیشن کا حصہ ہیں۔اٹارنی جنرل منصور عثمان کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور عدالتی حکم پڑھ کر سنایا تحریری حکمنامےکے مطابق اٹارنی جنرل نے 26 مئی کا سپریم کورٹ کا حکمنامہ پڑھ کر سنایا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انکوائری کمیشن سپریم کورٹ میں زیر التو دو درخواستوں میں باقاعدہ فریق ہے، سپریم کورٹ کے 26 مئی کے حکمنامے کی روشنی میں انکوائری کمیشن کارروائی ملتوی کرتا ہے۔جس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے تھے کہ سپریم کورٹ کے قواعد کے مطابق فریقوں کو سن کر فیصلہ کیا جاتا ہے،کمیشن کو حکم نامےکی کاپی فراہم کی جائے، سپریم کورٹ نے انکوائری کمیشن کے حوالے سے کوئی حکم جاری کیا ہے؟ تھوڑا بہت آئین میں بھی جانتا ہوں، کمیشن معاملے میں فریق تھا، اسے نوٹس کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا تھا کہ آپ کیوں کل کمرہ عدالت میں تھے ؟ آپ کو نوٹس کیا گیا تھا یا ویسےہی بیٹھے تھے۔اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ مجھے زبانی بتایا گیا تھا کہ آپ عدالت میں پیش ہوں، سماعت کے بعد مجھے نوٹس جاری کیا گیا تھا ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایک جج کے خلاف الزام پر سیدھا ریفرنس جائے تو وہ پوری زندگی بھگتتا رہےگا۔اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عبدالقیوم صدیقی کو روسٹرم پر بلا لیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پرکوئی اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی، ان کے دوسرے فریق نےکہا تھا کہ وہ میڈیکل چیک اپ کے لیے لاہور ہیں، کہا تھا جب لاہور آئیں تو ان کا بیان بھی لے لیں، عابد زبیری اور شعیب شاہین نے آنےکی زحمت بھی نہیں کی، کیا انہیں آکر بتانا نہیں تھا کہ کل کیا آرڈر ہوا تھا ۔
انہوں نے حلف پڑھا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا تھاکہ حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں، شعیب شاہین روزانہ ٹی وی پربیٹھ کر وکلا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، شعیب شاہین سے ایک ٹی وی پروگرام میں پلانٹڈ سوال کیےگئے،ہمیں قانون سکھانے آگئے ہیں، رولز کے مطابق وکیل اپنے مقدمے سے متعلق میڈیا پر بات نہیں کر سکتا، کوئی بات نہیں، سکھائیں ہم تو روزانہ قانون سیکھتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں زندگی میں بعض ایسے کام کرنے پڑتے ہیں جو ہمیں پسند نہیں ہوتے، ہمیں پٹیشنرز بتا رہے ہیں کہ حکم امتناع ہے آپ سن نہیں سکتے، وکلا کوڈ آف کنڈکٹ کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیا گیا ہے، ہم بعض کام خوشی سے ادا نہیں کرتے لیکن حلف کے تحت ان ٹاسکس کو ادا کرنے کے پابند ہوتے ہیں، ہمیں اس اضافی کام کا کچھ نہیں ملتا، ہمیں کیا پڑی تھی سب کرنےکی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سانحہ کوئٹہ کا ذکرکرتے ہوئے جذباتی ہوگئےتھے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس طرح کی دردناک تحقیقات کرنی پڑتی ہیں، اب ہمیں ٹاک شوز میں کہا جائےگا ہم آئین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، حلف کے تحت اس کمیشن کی اجازت نہ ہوتی تو معذرت کر کے چلا گیا ہوتا، ٹی وی پر ہمیں قانون سکھانے بیٹھ جاتے ہیں، یہاں آکر بتاتے نہیں کہ اسٹے ہوگیا ہے، ایک طرف پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود اپنی آڈیوز پر ٹاک شو میں بیٹھے ہیں، ہم ججز ٹاک شو میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل ہم بھی اس لیےآرڈر لیتے تھے کہ اگلے روز جا کر متعلقہ عدالت کو آگاہ کرتے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ یہ ٹوئٹر کیا ہے ؟ پتہ تو چلے کہ کون آڈیو جاری کر رہا ہے، اصلی ہیں بھی یا نہیں، ہوسکتا ہے جن لوگوں کی آڈیوز ہیں انہوں نے خود جاری کی ہوں، ہوسکتا ہے عبدالقیوم صدیقی نے اپنی آڈیو جاری کی ہو، تحقیقات ہونگی تو یہ سب پتا چل سکے گا، جج کو پیسے دینے کی بات ہورہی ہے مگر تحقیقات پر اسٹے آجاتا ہے، ججز کے بارے میں آڈیوز آئیں تحقیقات تو ہونی چاہیں، پرائیویسی کی آڑ میں کیا کسی الزام کی تحقیقات نہیں ہونی چاہیے، مجھے کوئی مرضی کے فیصلے کے لیے رقم آفر کرے تو کیا یہ گفتگو بھی پرائیویسی میں آئےگی؟ کیا راستے پر کوئی حادثہ ہوجائے تو اس کی ویڈیو جاری کرنا پرائیویسی کے خلاف ہوگا؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، ہیکر کا مجھے علم نہیں شاید میڈیا والوں میں سے کوئی جانتا ہو۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ حیران ہوں آپ نے کل ان نکات کو رد نہیں کیا، شعیب شاہین نے میڈیا پر تقریریں کر دیں، یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر جو سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں کیا یہ بھی پرائیویسی کے خلاف ہیں؟ آپ نےکل عدالت کو بتایا کیوں نہیں ان کے اعتراضات والے نکات کی ہم پہلے ہی وضاحت کرچکے، ابھی وہ اسٹیج ہی نہیں آئی تھی ، نہ ہم وہ کچھ کر رہے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کو سماعت سے قبل نوٹس ہی نہیں کیا گیا تھا توکام سےکیسےروک دیا، انکوائری کمیشن کو سنے بغیر ہی پانچ رکنی بینچ نے آرڈر دے دیا، ہائی کورٹس سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ماتحت عدلیہ اور ایگزیکٹو پر لاگو ہوتا ہے مگر سپریم کورٹ پر نہیں ہوتا، 5 رکنی بینچ کے آرڈر میں فیڈرل ازم کی بات کی گئی، سپریم کورٹ ہائی کورٹس کی نگرانی نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹس کے کئی فیصلے کالعدم قرار دیے، بظاہر فیڈرل ازم کو تباہ کیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کمیشن کی مزید کارروائی نہیں کر رہے، ہم آج کی کارروائی کا حکم نامہ جاری کریں گے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔ تحریری حکم نامے کے مطابق سپریم کورٹ نے آڈیو لیکس کمیشن کے تحریری حکم اور کارروائی پر بھی حکم امتناع جاری کیا اور آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کے قیام کا 19 مئی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل کردیا۔ سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ کمیشن میں ججز کی نامزدگی سے متعلق چیف جسٹس کی مشاورت لازمی عمل ہے، سپریم کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاقیت کے اصول کے تحت دو ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی نامزدگی کے لیے بھی چیف جسٹس سے مشورہ ضروری ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ججز کو نامزد کرنے سے ججوں پر شبہات پیداہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید پر مشتمل 5 رکنی بینچ نے آڈیو لیک کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر سماعت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا تھا اور عدالت عظمیٰ نے آڈیو لیکس کمیشن کو مزید کام سے روکتے ہوئے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا تھا۔ تحریری حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھنے والا اعتراض مسترد کیا جاتا ہے، یہ طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی انکوائری کمیشن میں کسی جج کی شمولیت کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سے اجازت ضروری ہے۔حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ بادی النظر میں وفاقی حکومت نے یکطرفہ اقدام سے آئینی اصولی کی خلاف ورزی کی ہے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے تحریری حکم نامے میں کہا تھا کہ اگلی سماعت 31 مئی کو ہوگی اور ساتھ ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں مذکورہ درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد شاہد زبیری، ایس سی بی اے کے سیکریٹری مقتدیر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھیں۔ قبل ازیں سماعت کے لیے عمران خان کی طرف سے ڈاکٹر بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری اور سیکریٹری بار مقتدیر اختر شبیر، درخواست گزار ریاض حنیف راہی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں پیش ہوئے تھے چاروں درخواستوں میں آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھے کہ حکومت کیسے سپریم کورٹ کے ججوں کو اپنے مقاصد کے لیے منتخب کر سکتی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب، عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے، بہت ہوگیا، اٹارنی جنرل صاحب آپ بیٹھ جائیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھےکہ حکومت کسی جج کو اپنی مرضی کے مطابق بینچ میں نہیں بٹھا سکتی، ہم نے سوال پوچھا کہ 184 (بی) میں لکھا ہے کم از کم 5 ججوں کا بینچ ہو، اگر آپ نے ہم سے مشورہ کیا ہوتا تو ہم آپ کو بتاتے۔’9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہوگئی‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعے کا فائدہ یہ ہوا کہ عدلیہ کے خلاف جو بیان بازی ہو رہی تھی وہ ختم ہو گئی، حکومت ہم سے مشورہ کرتی تو کوئی بہتر راستہ دکھاتے۔انہوں نے کہا تھا کہ آپ نے ضمانت اور فیملی کیسز کو بھی اس قانون سازی کا حصہ بنا دیا، 9 مئی کے سانحے کے بعد عدلیہ کے خلاف بیان بازی بند ہو گئی۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا تھا کہ آپ ہمارے انتظامی اختیار میں مداخلت نہ کریں، ہم حکومت کا مکمل احترام کرتے ہیں، عدلیہ بنیادی انسانی حقوق کی محافظ ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے تھےکہ حکومت نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی جلدی میں کی۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کے پرانے فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاتھا کہ کسی بھی حاضر سروس جج کو کمیشن میں تعینات کرنے سے پہلے چیف جسٹس کی مشاورت ضروری ہے۔ کسی نجی شخص کو بھی کمیشن میں لگانے سے پہلے مشاورت ضروری ہے کیونکہ اس نے جوڈیشل کارروائی کرنی ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاملے کی وضاحت دی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ وفاقی حکومت عدلیہ کے معاملات میں کوارٹرز کا خیال کرے، انکوائری کمیشن میں حکومت نے خود جج تجویز کیے۔ ریمارکس دیے کہ اس سے پہلے تین نوٹیفکیشنز میں حکومت نے جج تجویز کیے جنہیں بعد میں واپس لیا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ 2017 کو چیلنج نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاتھا کہ 1956 ایکٹ آئین کے احترام کی بات کرتا ہے، اس نکتے پر بعد میں آئیں گے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نکتے پر ابھی تیار ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاتھا کہ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ آئین کا احترام کریں، آئین کا احترام کرتے ہوئے روایات کے مطابق عمل کریں، معذرت سے کہتا ہوں کہ حکومت نے ججوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں نہیں لکھا کہ فون ٹیپنگ کس نے کی؟ فون ٹیپنگ ایک غیر آئینی عمل ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ نہ صرف غیر قانونی عمل ہے بلکہ آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔ عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاتھا کہ فون ٹیپنگ بذات خود غیر آئینی عمل ہے، انکوائری کمیشن کے ضابطہ کار میں کہیں نہیں لکھا کہ فون کس نے ٹیپ کیے، حکومت تاثر دے رہی ہے فون ٹیپنگ کا عمل درست ہے۔ مزید مؤقف اپنایا تھا کہ حکومت تسلیم کرے کہ ہماری کسی ایجنسی نے فون ٹیپنگ کی، جس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ فون ٹیپنگ پر بے نظیر بھٹو حکومت کیس موجود ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اصول طے کیے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا تھاکہ کس جج نے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کی اس کا تعین کون کرے گا؟ جس پر شعیب شاہین نے بتایا تھا کہ آرٹیکل 209کے تحت یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے، جوڈیشل کونسل کا اختیار انکوائری کمیشن کو دے دیا گیا۔ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ ٹیلی فون پر گفتگو کی ٹیپنگ غیر قانونی عمل ہے، آرٹیکل 14 کے تحت یہ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے، اس کیس میں عدلیہ کی آزادی کا بھی سوال ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھےکہ مفروضے کی بنیاد پر آڈیوز کو درست مان لیا گیا۔وکیل شعیب شاہین نے دلائل دیے تھےکہ کمیشن نے پورے پاکستان کو نوٹس جاری کیا کہ جس کہ پاس جو مواد ہے وہ جمع کروا سکتا ہے، کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیےتھے کہ آپ نے کہا کہ کمیشن کا قیام آرٹیکل 209 کی بھی خلاف ورزی ہے۔وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ سپریم کورٹ افتحار چوہدری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیسز میں فیصلے دے چکی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیےتھے کہ آرٹیکل 209 ایگزیکٹو کو اجازت دیتا ہے کہ صدراتی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتی ہے، بظاہر وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کے خلاف مواد اکٹھا کر کے مس کنڈکٹ کیا ہے۔انہوں نے کہا تھاکہ وفاقی حکومت نے آئین میں اختیارات کی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ لگتا ہے انکوائری کمیشن نے ہر کام جلدی میں کیا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھےکہ جج اپنی مرضی سے کیسے کمیشن کا حصہ بن سکتے ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے کسی جج کے خلاف بھی چیف جسٹس کی اجازت سے جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی دوسرے فورم پر جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میٹھے الفاظ استعمال کر کے کور دینے کی کوشش کی جارہی ہے، بظاہر اختیارات کی تقسیم کے آئینی اصول کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ یہ انتہائی پریشان کن صورت حال ہے، جب یہ آڈیو چلائی جا رہی تھی، حکومت یا پیمرا نے اس کو روکنے کی کوئی ہدایت جاری نہیں کی۔ شعیب شاہین نے کہا تھا کہ پیمرا نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی، حکومت نے بھی پیمرا سے کوئی باز پرس نہیں کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا کی حد تک عدالت سے متفق ہوں۔۔
وکیل شعیب شاہین نے بتایا تھا کہ فون ٹیپنگ اور بَگنگ شہری کی پرائیویسی کے خلاف ہیں، پاکستان کا آئین اور قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی اکثریتی فیصلے میں کچھ ایسا اصول طے ہوا تھا۔ جج کی سرویلنس کی ممانعت کی گئی ہے، کوئی ایسا قانون نہیں جو ایجنسیوں کو شہریوں کے فون ٹیپ اور پرائیویسی مجروح کرنے کا اختیار دیتا ہو۔ پرائیویسی مجروح کرنا بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، جمہوری حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ آئین کی حکمرانی اور قانون کی پاسداری کے پیش نظر شہریوں کے بنیادی حقوق اور ان کی پرائیویسی کے تحفظ کو مقدم رکھے۔ چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بظاہر آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن میں غلطیاں ہیں، بادی النظر میں آڈیو لیکس کمیشن عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے، آئین عدلیہ کو مکمل آزادی دیتا ہے۔جو تحقیقات اداروں نے کرنی تھی وہ ججوں کے سپرد کردی گئی۔
آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کے بعد چیف جسٹس نے مختصر عبوری حکم نامہ جاری کردیا تھا واضح رہے کہ 25 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے آڈیو لیکس انکوائری کمیشن کی تشکیل کے خلاف دائر درخواست 26 مئی کو سماعت کے لیے مقرر کی تھی۔وفاقی حکومت نے ججوں کی آڈیو لیکس کے معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا آڈیو لیکس معاملے پر کمیشن ایک سماعت کر چکا ہے جبکہ دوسری سماعت ہفتہ 27 مئی کو ہوئی تھی،