انتخابی بجٹ, سیاسی بجٹ یا آئی ایم ایف بجٹ…تیاریاں مکمل؟
کیا آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریاں مکمل ہیں؟ یہ بجٹ کیسا ہوگا؟ کیا یہ بجٹ اتحادی حکومت کا انتخابی سیاسی بجٹ ہوگا ؟یا پھر یہ آئی ایم ایف بجٹ ہوگا؟ کیا پاکستان پر ڈیفالٹ کی لٹکتی ہوئی تلوار ہٹ سکے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر پاکستانی کےذھن میں ہیں۔ آئندہ مالی سال کا بجٹ بہت اہم ہے کیونکہ ملک میں اس سال انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اگست میں موجودہ اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں گی اور متوقع طور پر ستمبر یا اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان آئین کا تقاضہ ہے۔ ایسے میں حکومت کے لیے وہ اقدامات کرنا ناگزیر ہیں جن سے مہنگائی اور بےروزگاری کی ستائی ہوئی عوام کوریلیف مل سکے۔ بجٹ ایسے ماحول میں پیش کیا جارہا ہے جب ملکی سیاست شدید تلاطم کا شکار ہے۔ ایک جانب مشکل معاشی صورتحال کی وجہ سے موجودہ حکمران اتحاد کی سیاسی مقبولیت کم ترین سطح پر ہے تو دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی جارحانہ سیاست نے ملک میں ہیجان کی سی کیفیت طاری کی ہوئی ہے۔ پاکستان میں یہ بجٹ انتہائی مشکل سیاسی اور معاشی حالات میں آرہا ہے۔ آئندہ اکتوبر میں پی ڈی ایم جماعتوں کو الیکشن کا سامنا ہے جس کے لیے پی ڈی ایم جماعتوں کو تیاری کرنا ہوگی۔ حکومت کا خسارہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے اور اس وقت کارپوریٹ سیکٹر یہ سمجھتا ہے کہ مزید ٹیکس لگنے کے امکانات ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر پر ٹیکس کو جاری رکھیں گے۔ مگر اس ٹیکس کے اثرات کارپوریٹ سیکٹر کے مالیاتی نتائج کو متاثر کررہے ہیں۔ لیکن بینکوں اور آئل و گیس کمپنیوں کی آمدنی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کو بلند ترین سطح پر افراطِ زر کی وجہ سے شرح سود میں اضافے نے بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے جبکہ آئل و گیس کمپنیوں کو روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ ہوا ہے۔ آئندہ بجٹ میں روز مرہ استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس 18 فیصد پر برقرار رکھا جائے گا۔ بچوں کے درآمدی دودھ، ڈبوں میں بند گوشت، مرغی اور مچھلی پر سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ بجٹ میں متوقع طور پر 1100 ارب روپے کا سالانہ ترقیاتی پروگرام رکھا جائے گا۔ یہ وہ پروگرام ہے جوکہ حکومت کو سیاسی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ صوبائی اور وفاقی ترقیاتی پروگرام میں اراکین اسمبلی کی مشاورت سے ان کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں یا حکومت بڑی سڑکوں، پلوں، نہروں کے پکا کرنے، اسپتال اور اسکولوں کی تعمیر کے لیے فنڈز سیاسی بنیادوں پر جاری کرتی ہے۔ مگر ان پروگرامز کی افادیت پر بھی سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ حکومت اس ترقیاتی بجٹ کو زیادہ سے زیادہ اپنے سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے‘۔اتحادی حکومت کے لیے مہنگائی ایک زہرِ قاتل کی طرح ہے اور یہی وہ بنیادی چیز ہے جس کی وجہ سے اتحادی حکومت اپنی مقبولیت کھو رہی ہے۔ وزیرِ مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں خسارے اور مہنگائی کا توازن قائم کرنا ہوگا، آئندہ بجٹ میں مہنگائی کنٹرول کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔خیال رہے کہ آئندہ مالی سال میں حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے اور قیمتوں میں اعتدال لانے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔آئندہ مالی سال میں حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے اور قیمتوں میں اعتدال لانے میں مشکلات کا سامنا رہے گا۔مئی 2022ء سے لے کر مئی 2023ء کے درمیان عام استعمال کی اشیا کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور عام آدمی کی پہنچ سے کھانا پینا بھی دور ہوگیا ہے۔ اہم غذائی اجناس جیسے آلو 108، آٹا 99 اور گندم 94.8 اور انڈے 90.3 فیصد مہنگے ہوئے۔ عام کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ تعلیم کے لیے درسی کتب 114 اور اسٹیشنری بھی 79.3 فیصد مہنگی ہوئیں۔اس کے علاوہ گاڑیوں کا ایندھن 69.9، گیس 62.8، بجلی 59.2، گاڑیوں کے پرزہ جات 45، گھریلو سامان 41، تعمیراتی سامان اور گاڑیاں 38 فیصد مہنگی ہوئیں۔ پاکستان میں مہنگائی کی بڑی وجوہات میں ایک وجہ ہے افراطِ زر جبکہ دوسری وجہ ہے مارکیٹ کی نگرانی کا نظام۔ اسٹیٹ بینک کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہے۔ وہ یہ اقدام ملک میں زر کے پھیلاؤ کو کم کرکے حاصل کرتا ہے اور اس مقصد کے لیے مانیٹری پالیسی کے ذریعے اقدامات اٹھاتا ہے۔ اس وقت افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بنیادی شرح سود کو 21 فیصد کردیا ہے جوکہ موجودہ صدی کی بلند ترین بنیادی شرح سود ہے۔انتظامی اقدامات، مارکیٹوں کی نگرانی کے ذریعے بھی مہنگائی کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ اقدامات صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہیں۔ وفاقی حکومت اس وقت صوبہ پنجاب اور خبیرپختونخوا میں قائم نگراں حکومتوں کے حوالے سے زیادہ مطمئن نظر نہیں آتی ۔ ان کے مطابق دونوں حکومتیں اگر ناجائز منافع خوری اور پرائس مانیٹرنگ پر اپنی کارکردگی بہتر کریں تو قیمتوں میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے وقت روپے کی قدر 185 روپے تھی جوکہ اب بڑھ کر انٹر بینک میں 258 روپے کے قریب ہے جبکہ اوپن مارکیٹ میں 311 روپے کی قدر کو چھو چکی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے پاکستانی معیشت کی عالمی ویلیو ایشن میں بھی کمی ہوتی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری کے باعث رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کا حجم 34 ارب ڈالر تک سکڑ گیا ہے اور یہ 375 ارب روپے سے کم ہوکر 341 ارب ڈالرز رہ گیا ہے۔روپے کے قدر میں کمی سے صرف نقصانات نہیں ہورہے بلکہ برآمد کنندہ گان کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے برآمد کنندہ کو ہر روز اپنی مصنوعات کی فروخت پر فائدہ ہوتا ہے۔پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کا نظام اپنی جڑ مضبوط نہیں کرسکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پہلے دن سے ہی قرضہ لینا شروع کردیتی ہیں اور آخری دن تک قرض لیتی رہتی ہے۔ٹیکس چونکہ فیصد میں لگایا جاتا ہے۔ اس لیے افراطِ زر اور مہنگائی بڑھنے سے حکومت کے ٹیکس میں خود بہ خود اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی اگر افراط زر 39 فیصد ہے تو ٹیکسوں کی وصولی خود بہ خود 39 فیصد تک بڑھ جانی چاہیے مگر ایف بی آر کی کارکردگی افراط زر کے باوجود مایوس کُن رہی اور وہ ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو گزشتہ مالی سال 2023ء کے لیے طے کردہ 66 کھرب 40 ارب روپے کا ٹیکس ہدف پورا کرنے بھی ناکام رہا۔ ایف بی آر نے 62 کھرب 10 ارب روپے وصول کیے جوکہ ہدف سے 430 ارب روپے کم ہیں۔حکومت نے ایک طبقہ نان فائلر کا بھی متعارف کروایا ہے جوکہ انکم ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرتا اور اس سے کسی قسم کی پوچھ گچھ بھی نہیں کی جاتی ,سیلز ٹیکس کی چوری روکنے کے لیے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف ہوا۔ اس کو بڑی اور اچھی کمپنیوں نے تو استعمال کیا اور انہیں مکمل ٹیکس ادا کرنا پڑا جبکہ ان کے مد مقابل چھوٹی کمپنیوں کو ٹیکس سے چھوٹ مل گئی۔ فروری 2023ء میں تمباکو پر 150 فیصد ایف ای ڈی بڑھائی گئی جس کے بعد کمپنیوں نے ایف ای ڈی کو لاگو کیا۔ جبکہ باقی چھوٹی کمپنیاں عدالت میں گئیں۔ چھوٹی کمپنیوں کے سیگریٹ سستی ہونے کی وجہ سے ان کی فروخت بڑھ گئی اور بڑی کمپنیوں کی فروخت میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ حکومت کی ٹیکس وصولی کم ہوگئی۔ اسی طرح جوسز پر ایف ای ڈی بڑھائی گئی تو ان کی فروخت کم ہوئی، حکومتی ٹیکس بھی کم ہوا اور غیر دستاویزی اور غیر معیاری مارکیٹ بڑھ گئی۔ دستاویزی صنعت سکڑ رہی ہے۔ اب لوگ بینکوں کے بجائے نقد لین دین کررہے ہیں تاکہ ٹیکس سے بچت ہوسکے یہی وجہ ہے کہ مالی سال 2015ء میں زیرِ گردش سرمایہ 30 فیصد تھا جوکہ اب بڑھ کر 45 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کے حوالے سے وکلا، ڈاکٹرز، ریٹیلرز اور جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس عائد ہونا چاہیے۔جائیداد پر ٹیکس جمع ہونا چاہیے۔ہمیں زرعی آمدنی پر بھی ٹیکس لگانا چاہیے۔ ریٹیل سکیٹر ٹیکس نیٹ سے باہر ہے۔ ملک بھر میں 22 لاکھ دکانوں میں سے صرف 30 ہزار ٹیکس دیتی ہیں۔جائیداد کی خرید و فروخت کے حوالے سے یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ بڑی بڑی نجی رہائشی سوسائٹیز کے خرید وفروخت، لین دین کے نظام کو ایف بی آر سے اسی طرح منسلک کیا جائے جس طرح بڑی ریٹیل مارکیٹس کو منسلک کیا گیا ہے۔ کوشش کی جائے کہ جائیداد کی ڈی سی، ایف بی آر ویلیو کو ختم کر کے حقیقی ویلیو پر ٹیکس عائد کیا جائےبائی بیک اتھارٹی قائم کی جائے تاکہ کم قیمت پر جائیداد کی خرید و فروخت کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اس لیے کسی بھی جائیداد کی خرید و فروخت کے لیے ایک ایکسچینج قائم کیا جائے جس میں جائیداد کو رجسٹر کروانے کے بعد اس کی بولی لگا کر نیلامی کی جائے اور زیادہ بولی دینے والے کو جائیداد فروخت کردی جائے۔حکومت فائلر اور نان فائلر کی تمیز کو ختم کرتے ہوئے جائیداد اور گاڑی خریدنے کی اجازت انہیں پاکستانیوں کو دے گی جو کہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ڈالر کی قلت نے پاکستانی معیشت کو بڑا دھچکا دیا ہے۔ رواں مالی سال مجموعی مقامی پیداوار صرف 0.29 فیصد رہی جبکہ حکومت کا ہدف 5 فیصد تھا۔ اس کی بڑی وجہ صنعت، خدمات اور زراعت کے شعبے کی مایوس کن کارکردگی ہے۔ بڑی صنعتوں سمیت ہول سیل اور ریٹیل نے ترقی معکوس دیکھی۔زرمبادلہ کی قلت آئندہ مالی سال بھی معیشت کو متاثر کرنے والی ہے۔ جس کی وجہ سے آئندہ مالی سال جی ڈی پی کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کا امکان ہے۔دنیا کی آبادی کا 3 فیصد پاکستان میں ہے۔ دنیا کے جی ڈی پی میں ان 5 ممالک کا حصہ 45 فیصد ہے اور اگر آبادی کے لحاظ سے 10 بڑے ممالک کا جائزہ لیا جائے تو ان کی عالمی جی ڈی پی 60 فیصد سے زائد ہے۔ مگر پاکستان کا حصہ اس میں صرف 0.4 فیصد ہے۔رواں مالی سال حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا فی کس آمدنی میں کمی ہے۔ رواں مالی سال فی کس سالانہ آمدن ایک ہزار 568 ڈالرز رہی جوکہ گزشتہ مالی سال میں ایک ہزار 766 ڈالرز تھی۔ اس طرح فی کس آمدنی میں 198 ڈالر کی نمایاں کمی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ صنعتوں کی بندش، بےروزگاری میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ حکومت کو آئندہ مالی سال کے لیے فی کس آمدن بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔حکومت اپنے ووٹ بینک کو بچانے اور آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے ایک کھلی سبسڈی کی اسکیم کے بجائے پسماندہ طبقات کو سبسڈی فراہم کرنے اور ان کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔ توقع کی جارہی ہے کہ حکومت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں مالی اور عددی اعتبار سے اضافہ کرے گی۔اس مد میں رواں بجٹ میں اضافہ کیا گیا اور اس کو 250 ارب روپے سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا تھا۔ توقع ہے کہ اس میں مزید 100 ارب روپے کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں توسیع شہری علاقوں کے پسماندہ طبقات کے لیے کی جاتی ہے یا دیہی علاقوں کے لیے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں غربت بڑھی ہے۔ معاشی سست روی، صنعتوں اور کاروبار کی بندش کی وجہ سے شہری محنت کش بے روزگار ہوئے ہیں جبکہ افراطِ زر بھی شہروں میں رہنے والے غریبوں کو زیادہ متاثر کیا ہے۔موجودہ حکومت نے بینکوں کے ایل سی کھولنے کی حد مقرر کردی ہے اور بینک ماہانہ 30 سے 50 کروڑ ڈالرز تک کی ایل سی کھول سکتے ہیں۔ اس سے بینکوں کے پاس ایک طاقت آگئی ہے۔
روپے کے قدر میں کمی سے صرف نقصانات نہیں ہورہے بلکہ برآمد کنندہ گان کو فائدہ بھی ہورہا ہے۔ روپے کی تیزی سے گرتی ہوئی قدر سے برآمد کنندہ کو ہر روز اپنی مصنوعات کی فروخت پر فائدہ ہوتا ہے۔برآمد کنندہ گان کو جس چیز پر پہلے 10 روپے نفع ہورہا تھا، اب یہ نفع بڑھ کر 50 سے 60 روپے ہوگیا ہے۔ 2، 3 ماہ میں لوگوں کے کاروبار نے بہت کمایا ہے۔اس وقت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان فنانسنگ گیپ پر معاملات اٹکے ہوئے ہیں۔ پروگرام کی تکمیل کے لیے پاکستان کے وزیرِاعظم شہباز شریف اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان ہونے والی بات چیت بھی ہوئی۔ترکش خبر ایجنسی ’انادولو‘ سے گفتگو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عملی شکل اختیار کر لے گا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے پاکستان تمام اقدامات مکمل کر چکا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، امید ہے رواں ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدہ ہو جائے گا۔ وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عمل میں آئے گا، آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے اور امید ہے کہ ہمیں اس مہینے کچھ اچھی خبر ملے گی۔
آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ پاکستان قرض پروگرام بحالی کے لیے 6 ارب ڈالر کی اضافی فنانسنگ کا بندوبست کرے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ آئی ایم ایف جس پیشگی یقین دہانی کو طلب کررہا ہےاس پر سعودی عرب 2 ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر فراہمی کا یقین آئی ایم ایف کو دلواچکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، کفایت شعاری اور درآمدی کنٹرول کو کم کرکے بیرونی فنانسنگ کی ضروریات کو کم کیا اور اب 6 ارب ڈالرز کی ضرورت نہیں لیکن آئی ایم ایف اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔پاکستان نے اس سال جون تک اصل زر اور سود کی مد میں 4.1 ارب ڈالرز کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ جس کے بعد مالی سال کے آغاز پر ملکی سرکاری زرمبادلہ ذخائر چین کے قرضوں کے رول اوور کے ساتھ صرف 3 ارب ڈالرز رہ جائیں گے۔ اور متوقع طور پر ستمبر میں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر یا اس سے کم ہوں گے۔اگر پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا تو اس مالی سال میں نہیں تو آئندہ مالی سال میں ملک کو نقنصان ہو گا۔۔آئی ایم ایف کے سخت پروگرام میں تعطل کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت بدترین معاشی حالات کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اندرونی معیشت کے بجائے بیرونی وسائل کی قلت ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں اور طویل عرصے سے انتہائی کم ترین سطح پر موجود ہیں۔ متوقع طور پر ستمبر میں یہ ڈیڑھ ارب ڈالر یا اس سے کم ہوں گے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام نہیں لیا تو اس مالی سال میں نہیں تو آئندہ مالی سال میںنقنصان ہو گا۔پاکستان کا کہنا ہے کہ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے کڑی شرائط کو پورا کیا گیا ہے۔ جس میں مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اور شرح سود میں ایڈجسٹمنٹ شامل ہیں۔ حکومت کے مالیاتی حالات بہتر بنانے کے لیے مالی سال کے وسط میں نئے ٹیکس عائد کیے گئے، پیٹرولیم لیوی، اور دیگر شرائط عمل کیا گیا ہے۔وزیرِ خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کے مطابق پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ گھانا اور سری لنکا سے پاکستان کا موازنہ گمراہ کن ہے۔ پاکستان نے آئندہ مالی سال 24-2023ء میں تقریباً 25 ارب ڈالر کے قرضوں کو واپس کرنا ہے۔ جس میں تجارتی قرضوں کا حجم 10 فیصد ہے۔ باقی 90 فیصد عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ دوطرفہ قرض ہیں۔پاکستان اس وقت آئی ایم ایف سے 23 پروگرام لے چکا ہے اور 2 کے علاوہ کسی بھی پروگرام کی تکمیل نہیں ہوسکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتیں مشکل معاشی فیصلوں کا بوجھ اٹھانے سے ہمیشہ گھبراتی رہی ہیں۔عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف، پاکستان اور دنیا بھر میں ایک نہایت ہی غیرمقبول ادارہ ہے۔ مگر اس کے بغیر حکومتوں کا گزارا بھی نہیں۔ آئی ایم ایف معاشی مشکلات کے شکار ممالک کی معیشت میں اصلاحات کی کڑی شرائط پر قرض دیتا ہے اور یہی عوامی اور سیاسی سطح پر اس کی غیرمقبولیت کی وجہ ہے۔ کوئی سیاسی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر قرض لینا پڑے مگر کیا کریں جب بین الاقوامی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ نہ ہو تو آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔پاکستان میں نجی کاروبار کو سبسڈی فراہم کرنا یا انہیں مارکیٹ کی رسائی کا تحفظ فراہم کرنا ایک عام سی بات ہے۔ پاکستان میں ہر صنعت جیسے ٹیکسٹائل، فولاد سازی، آٹوموبیل، ادویات سازی، موبائل فونز وغیرہ کو 200 فیصد تک مالیاتی یا غیرمالیاتی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے جس سے قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ کیا صنعتوں اور کاروبار کو دیا جانے والا تحفظ برقرار رہےگا یا پھر اس میں کوئی تبدیلی ہوگی؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عوام سے زیادہ اشرافیہ یعنی تاجر، صنعت کار اور بزنس کمیونٹی تلاش کررہی ہے۔ایران سعودی عرب سفارتی تعلقات کی بحالی، افغانستان میں طالبان کی مستحکم ہوتی ہوئی حکومت اور اس کی سی پیک میں شمولیت سے خطے کو استحکام کی جانب لے جانے میں مدد ملی ہے تو دوسری طرف بھارت کا جارحانہ رویہ خطے میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ چین اور امریکا کی براہِ راست تجارتی محاذ آرائی اس وقت سفارتی محاذ آرائی سے آگے نکلتے ہوئے کسی بھی وقت عسکری کشیدگی میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ امریکا کی جانب سے تجارتی عالمگیریت کے برخلاف چین پر پابندیاں عائد کرنے سے ایک کشیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرین جنگ نے یورپ میں سلامتی اور ایندھن کے ایسے مسائل کھڑے کردیے ہیں جس کے اثرات عالمی منڈی اور خصوصاً ہمارے خطے پر بھی پڑ رہے ہیں۔پاکستان کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے اضافی بجٹ کے علاوہ ایسی معاشی پالیسی بھی دینا ہوں گی جوکہ چین اور امریکی بلاکس میں توازن کو قائم رکھ سکے۔ پاکستان میں متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جس سے امریکی مفادات کو ٹھیس لگتی محسوس ہورہی ہے۔ پاکستان کا روس سے ایندھن کی خریداری کا عمل شروع کرنے کے علاوہ روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر، یعنی مال کے بدلے مال کی تجارت شروع کرنا اور ایران کے ساتھ سرحدی مارکیٹ کا قیام اس سلسلے کی کڑی ہیں