اسلام آباد(اردو ٹائمز) فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ 365 ویں روز بھی جاری رہا
_اصغر علی مبارک..
اسرائیلی سفاکی,عالمی برادری کی بے حسی ,اقوام متحدہ کی بے بسی، او آئی سی کی خاموشی سے فلسطینیوں کی نسل کشی کا بھیانک سلسلہ مسلسل 365 ویں روز بھی جاری رہا پانچ اکتوبر ہفتے کے روز فلسطینیوں کی نسل کشی کا مسلسل 365واں روز تھا قابض فوج نے ہفتے صبح سے غزہ میں جنگی طیاروں اور توپ خانے سے مزید وحشیانہ حملے کیے ہیں جن میں مزید درجنوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی منظم نسل کشی ایک ایسے وقت میں جاری ہے جب غزہ کی پٹی کی 95 فی صد آبادی بے گھر ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین نے عینی شاہدین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک شہید بچے جون الیان کی لاش صبح نصیرات کے العودہ ہسپتال پہنچائی گئی۔ اسے شمال میں الدعاء کے علاقے میں اس کے خاندان کے گھر کے ملبے تلے سے برآمد کیا گیا۔ نصیرات کیمپ کے شمال مغرب میں بمباری کے نتیجے میں چھ فلسطینی شہید ہوگئے۔ خان یونس کے مشرق میں قابض فوج کی طرف کی گئی بمباری کےنتیجے میں گھر کے ملبے کے نیچے سے ایک بچی برآمد ہوئی ہے۔گذشتہ برس سات اکتوبر سےاب تک اسرائیلی جارحیت کے نیتجے میں 41,788 فلسطینی شہید اور 96,794 زخمی ہو چکے ہیں ,
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر طولکرم میں ایک ہوٹل پر اسرائیلی فوج نے سفاکانہ حملہ کیا ہےجس میں کم سے کم 20 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے طولکرم میں قتل عام کا واقعہ غزہ اور لبنان میں جاری وحشیانہ قتل عام کا تسلسل ہے طولکرم میں بے رحمانہ قتل عام کے نتیجے میں درجنوں معصوم فلسطینیوں کی شہادت پرحماس نے کہا ہے کہ صہیونی فوج کا یہ بزدلانہ حملہ معصوم لوگوں کا اجتماعی قتل عام ہے مگر یہ قتل عام ہماری مزاحمت کے حوصلے پست نہیں کرسکتا یہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ پہلی جنگ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطینی خطے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس وقت یہاں پر ایک عرب اکثریت میں جبکہ یہودی اقلیت میں تھے۔دونوں برادریوں میں تناؤ اس وقت بڑھنے لگا جب عالمی برادری نے برطانیہ کی ذمہ داری لگائی کہ وہ یہودی کمیونٹی کے لیے فلسطین میں ’قومی گھر‘ کی تشکیل کریں۔ یہودیوں کے نزدیک یہ ان کا آبائی گھر تھا مگر اکثریت میں موجود فلسطینی عربوں نے اس اقدام کی مخالفت کی۔1920 کی دہائی سے لے کر 1940 کی دہائی کے دوران یہاں آنے واے یہودیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ان میں سے کچھ دوسری جنگِ عظیم میں یورپ سے ہولوکاسٹ سے بچ کر آئے تھے۔سنہ 1947 میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست جبکہ یروشلم (بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گااس تجویز کو یہودی رہنمائوں نے تسلیم کر لیا جبکہ عربوں نے بکثرت مسترد کر دیا 1948 میں برطانوی حکمران یہ مسئلہ حل کیے بغیر ہی یہ خطہ چھوڑ کر چلے گئے ادھر یہودیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔بہت سے فلسطینیوں نے اس کی مخالفت کی اور پھر جنگ چھڑ گئی۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بیدخل کر دیا گیا اور انھیں جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا اس واقعے کو النکبہ (یعنی تباہی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جنگ بندی کا اعلان ہوا تو اسرائیل نے زیادہ تر خطے کا کنٹرول سنبھال لیا تھااردن نے جو خطہ حاصل کیا اسے ویسٹ بینک یعنی غربِ اردن کہتے ہیں اور مصر نے عزہ کی پٹی سنبھال لی۔ بیت المقدس کے مغربی حصے کو اسرائیلی فورسز نے سنبھال لیا جبکہ اردن کی فوج نے مشرق کا کنٹرول لے لیا۔ کیونکہ یہاں پر امن معاہدہ نہیں ہوا اس لیے ہر فریق نے اپنے مخالف پر الزام دھرا اور مزید جنگیں بھی ہوئیں اور کئی دہائیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔1967 میں ایک اور جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور غربِ اردن کے ساتھ ساتھ شام میں گولان کی پہاڑیوں، غزہ کی پٹی اور مصر میں آبنائے سینا پر بھی قبضہ کر لیا۔زیادہ تر فلسطینی، جو اب پناہ گزین بن چکے تھے، یا ان کی آنے والی نسلیں اب غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہتے ہیں۔ اس کے بہت سے فلسطینی رشتہ دار اردن، شام، اور لبنان میں مقیم ہیں۔نہ پناہ گزینوں کو اور نہ ہی ان کی نسلوں کو اسرائیل نے اپنے گھروں کو لوٹنے کی اجازت دی۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایسا کرنا ان کے ملک کے لیے بہت بھاری ثابت ہو گا اور ان کی ریاست کو بطور ایک یہودی ریاست خطرہ ہو گا۔اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لی ہیں، مگر اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔ امریکہ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو اسرائیلی دعوے کو تسلیم کرتا ہے۔اسرائیل نے یہاں آبادیاں بنا لی ہیں جہاں چھ لاکھ یہودی رہتے ہیں۔فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں جبکہ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔مشرقی بیت المقدس، غزہ کی پٹی اور غربِ اردن میں رہنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تناؤ ہمیشہ ہی رہا ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسراقتدار ہے جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں فلسطینی خاندانوں کو مشرقی بیت المقدس میں ان کے گھروں سے بیدخل کیے جانے کے بعد سے فلسطینیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی اتفاق نہیں کر سکتے۔فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہو گا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکتے ہیں اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست بننی چاہیے۔ گذشتہ 30 سالوں میں مذاکرات ہوتے رہے ہیں مگر معاملات حل نہیں ہو سکے۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے دو ریاستی حل کو ترک کرنے کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس کا کوئی دوسرا حل نہیں ہے‘
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریس نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ دو ریاستی حل کے لیے ہم ممکن اقدامات اٹھائیں۔اس تنازعے کا کوئی دوسرا حل نہیں ہےتاہم فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔دو ریاستی حل مشرقِ وسطیٰ میں امن کا وہ ممکنہ فریم ورک ہے جس پر عرب لیگ، یورپی یونین، روس اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے بیشتر رہنما اتفاق کرتے رہے ہیں۔اس فریم ورک کے تحت 1967 میں عرب اسرائیل جنگ سے قبل کی اسرائیلی حدود کے مطابق عربِ اردن، غزہ پٹی اور مشرقی یروشلم میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہےاقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں میں اس فریم ورک کی تائید کی گئی ہےتاہم کئی دہائیوں کی کوششوں کے باوجود اس فریم ورک کو حقیقت نہیں بنایا جا سکا ہے۔ اوسلو معاہدوں میں دو ریاستی حل کو عملی جامعہ پہننانے کا عزم دہرایا گیا تھا تاہم 25 سال بعد بھی اس پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن کے گرد دیوار کی تعمیر اور یہودی بستیوں کی تعمیر کے عمل کو جاری رکھے جانے کی وجہ سے فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔ ادھر فلسطین میں حماس اور دیگر گروہوں نے کبھی بھی دو ریاستی حل کی حمایت نہیں کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ تمام مقبوضہ علاقے پر ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہونا چاہیے۔
ایران کے سپریم لیڈرآیت اللہ سید علی خامنہ ای کاکہناہےکہ طوفان الاقصیٰ فلسطینیوں کا حق تھا‘جو ایران کا دشمن ہے وہ فلسطین، لبنان، عراق، مصر، شام اور یمن کا دشمن ہے،اسرائیل کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی بڑھتی ہوئی بے حرمتی کے جواب میں 7 اکتوبر 2023 کو ہفتے کی صبح اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز کے کمانڈر انچیف محمد الضیف نے “آپریشن طوفان الاقصیٰ” شروع کرنے کا اعلان کیاتھا۔
ایک ریکارڈ شدہ تقریر میں حماس کےر ہنما نےکہاکہ “ہم آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز کا اعلان اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دشمن کے ٹھکانوں اور قلعوں کو نشانہ بنانے والے پہلے حملے میں 5000 سے زیادہ راکٹ اور گولہ بارود شامل تھے۔ “دشمن نے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کی ہے اور ہم نے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے ” اور اس بات پر زور دیا کہ القسام بریگیڈز کی کمان نے قابض ریاست سے اس کے جرائم پر جواب طلبی کرنے کا فیصلہ کیا ہے “قابض ریاست نے سینکڑوں شہریوں کا قتل عام کیا ہے اور آج الاقصیٰ اور ہماری قوم اور بہادر جنگجوؤں کا غصہ پھٹ پڑا ہے۔ یہ آپ کا دن ہے کہ دشمن کو سمجھائیں کہ اس کا وقت ختم ہو گیا ہےضیف نے ہر اس فلسطینی سے مطالبہ کیا کہ جس کے پاس ہتھیار ہے کہ وہ اسے غاصبانہ قبضے، اسرائیل کی افواج اور آباد کاروں کے خلاف استعمال کریں اور عرب اور مسلم عوام پر زور دیا کہ وہ فلسطین کی آزادی میں حصہ لینے کے لیے مارچ کریں سرحدیں، حکومتیں یا کسی قسم کی پابندیاں آپ کو جہاد کے اعزاز اور مسجد اقصیٰ کی آزادی میں شرکت سے محروم نہ ہونے دیں ’ہم نے دشمن کو متنبہ کیا کہ وہ مسجد اقصیٰ کے خلاف اپنی جارحیت کو ختم کرے‘بغیر کسی جواب کے دشمن کی جارحیت کا دور اب ختم ہو گیا میں مغربی کنارے اور گرین لائن کے اندر ہر جگہ فلسطینیوں سے بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اپیل کرتا ہوںحماس سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند علی الصبح موٹرسائیکلوں کے علاوہ پیرا گلائیڈرز اور کشتیوں کا استعمال کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے علاقے سے اسرائیلی حدود میں داخل ہوئے یہ واضح نہیں کہ اتنی بڑی تعداد میں مسلح افراد دنیا کے سخت ترین حفاظتی انتظامات والی سرحد عبور کرنے میں کیسے کامیاب رہے۔ حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کو اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسی کی ناکامی بھی قرار دیا گیا۔اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن کے جواب میں غزہ پر اسرائیل نے بمباری کی حماس نے درجنوں اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا جن میں شہری اور فوجی دونوں شامل تھے حماس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس 53 ’جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینیئر افسر بھی شامل ہیں حماس کئی فلسطینی عسکریت پسند گروہوں میں سب سے بڑا عسکریت پسند گروپ ہےدراصل یہ نام ’اسلامی مزاحمتی تحریک‘ کا عربی مخفف ہے۔ اس تحریک کی ابتدا سنہ 1987 میں مغربی کنارے (ویسٹ بینک) اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف شروع ہونے والی پہلی فلسطینی مزاحمت کے آغاز کے بعد ہوئی تھی حماس کے چارٹر (منشور) کے مطابق یہ گروہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پُرعزم ہےابتدا میں حماس کا دو بنیادی مقصد تھے جن میں سے ایک فلسطینیوں کے لیے معاشرتی بہبود کے پروگرام چلانا اور دوسرا اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا تھا۔ مسلح جدوجہد کرنے کی ذمہ داری بنیادی طور پر حماس کے عسکری ونگ ’عز الدين القسام بریگیڈ‘ کی تھی۔وقت کے ساتھ ساتھ اس گروہ کی طاقت بڑھتی رہی اور سنہ 2005 کے بعد حماس نے فلسطینی سیاسی عمل میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔ اگلے ہی برس یعنی سنہ 2006 میں حماس نے فلسطین کے قانون ساز انتخابات میں فتح سمیٹی اور سنہ 2007 میں اس وقت کے صدر محمود عباس کی فتح تحریک پر سبقت لیتے ہوئے غزہ پر اپنا سیاسی کنٹرول مستحکم کیا۔اس کے بعد سے غزہ میں موجود اس عسکریت پسند تنظیم کی اسرائیل کے ساتھ تین بڑی لڑائیاں ہوئی ہیں اور ماضی میں اسرائیل نے مصر کے ساتھ مل کر حماس کو الگ تھلگ کرنے اور حملوں سے باز رکھنے کی غرض سے غزہ کی پٹی پر ناکہ بندی برقرار رکھی حماس کو اسرائیل کے خلاف پہلی مزاحمتی تحریک کے بعد اس وقت اہمیت ملی جب اس نے اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے مابین 1990 کی دہائی کے اوائل میں ہونے والے امن معاہدوں کی مخالفت کی۔ اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف ہونے والے متعدد آپریشنز کے باوجود یہ تنظیم قائم رہی اور اس تنظیم نے ان تمام اسرائیلی اقدامات کا جواب خودکش حملے کرنے کی صورت میں دیا۔فروری اور مارچ 1996 میں بم بنانے کے اپنے ایک ماہر کارکن یحییٰ ایاش کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے بسوں میں متعدد خودکش دھماکے کیے گئے جن میں 60 کے قریب اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے۔۔ نتین یاہو اوسلو معاہدے کے پہلے ہی سخت مخالف تھے۔ اوسلو معاہدہ اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے مابین ہونے والا امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے ختم ہونے اور امریکی صدر بل کلنٹن کی جانب سے سنہ 2000 میں کیمپ ڈیوڈ سمٹ کی ناکامی کے بعد حماس کی مزاحمتی تحریک کا دوسرا بڑا دور شروع ہوا۔حماس کا منشور اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس منشور میں تاریخی فلسطین کی ترجمانی کی گئی ہے یعنی آج جہاں اسرائیل واقع ہے اسے مسلمانوں کی ملکیت زمین کہا گیا ہے جبکہ یہودی ریاست کے ساتھ کسی نوعیت کے مستقل امن قائم کرنے کی مکمل نفی کی گئی 1988 کے منشور میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تاہم سنہ 2017 میں حماس نے ایک نئی پالیسی دستاویز تیار کی جس میں پہلے منشور میں اپنی بیان کردہ کچھ پوزیشنز میں نرمی پیدا کی گئی اور زبان کا استعمال احتیاط سے کیا گیا۔حماس اور کچھ معاملات میں اس کے عسکری ونگ کو اسرائیل، امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے ’دہشت گردہ گروہ‘ قرار دے رکھا ہے۔جب حماس نے سنہ 2006 میں فلسطینی پارلیمانی انتخابات میں زبردست فتح حاصل کی تھی