پشاور (اردو ٹائمز) نیشنل ایکشن پلان 16 دسمبر سانحہ آرمی پبلک سکول اور دینی مدارس کی رجسٹریشن پر سیاست
شہدائے آرمی پبلک سکول کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا 16 دسمبر 2014 کا سانحہ بہت گہرا زخم ہے جس کا بھرپانا ممکن نہیں ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کےتحت دینی مدارس کی رجسٹریشن پر سیاست کی جارہی ہے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدارس میں مسلکی شدّت اور فکری ضیق کی روایت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ مدارس کے وفاق بھی مسلکی نسبت کی اساس پر بنے ہیں، لیکن اس کا سبب نصاب نہیں بلکہ مدارس کا عمومی ماحول ہے۔
16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد بظاہر ایسا لگتا تھا کہ 1980 کے بعد کی ریاستی پالیسی میں بڑی حدتک تبدیلی آگئی ہےدینی مدارس اور دہشت گردی نیشنل ایکشن پلان کے لئے بھی بڑے چیلنج کے طور پر موجود رہے 16 دسمبر کے سانحے کے نتیجے میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان مسلسل مشاورت کے بعد ایک نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا تھا، جس کےکچھ مثبت نتائج بھی سامنے آئےنیشنل ایکشن پلان میں طے شدہ نکات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ دینی مدارس کی باقاعدہ رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے گا اور ایسے اقدامات اُٹھائے جائیں گے کہ دینی مدارس’’ مسئلے‘‘ کا نہیں بلکہ ’’حل‘‘ کا حصّہ بن جائیں۔ قومی قیادت کی یہ خواہش حددرجہ قابل تحسین تھی کیونکہ نظریاتی اور فکری انتہاپسندی، فرقہ وارانہ عدم برداشت اور متشدّدانہ رویّوں کے فروغ یا ان کو کم کرنے میں اِن مدارس کے اساتذہ کرام اور طلبہ کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔واضح رہے کہ7 ستمبر 2015ء کو دینی مدارس کے حوالے سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایک اہم اجلاس ہوا تھاجس میں دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے سربراہان،اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے علاوہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان شریک ہوئےتھے۔ اطلاعات کے مطابق اجلاس میں یہ طے کیا گیا تھاکہ مدارس کی رجسٹریشن کو آسان بنا دیا جائے گا۔ دینی مدارس کی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات کو دستاویزی بنانے کے لئے بنکوں میں ان کے اکاؤنٹس کھولنے کے لئے مراحل آسان بنائے جائیں گے اور مدارس کے حسابات کا آڈٹ کیا جائے گا۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب کی تشکیل کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ ظاہر ہے، اس قسم کے فیصلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن عملی نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیاتھا۔ تاہم اس اجلاس کی ’’خصوصی نوعیت‘‘ کی وجہ سے یہ امکان تھا کہ عملی پیش رفت کی طرف اقدامات شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مذہب کے حقیقی مفہوم اور تقاضوں سے عدم آگاہی اور اسلام میں مطلوب ظواہر کی پابندی کا اہتمام نہ کرنے کے باوجود ان کی اہمیت پر ایمان اور یقین رکھتا ہے۔ ان ظواہر کے حوالے سے وہ علماء کرام، خطباء اور آئمہّ مساجد پر انحصار کرتا ہے اور دینی معاملات میں ان کی آراء کو وقیع سمجھتا ہے۔ اس لئے دینی مدارس کے نظام، نصاب اور مالیات ان کے اندر جاری و ساری نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں اور ان کے اثرات کو عمیق تحقیق کا موضوع بنانا وقت کا تقاضا ہے۔دینی مدارس میں یہ خیال عام ہے کہ ان کا موجودہ نظام اور نصاب دشمنان اسلام کی آنکھوں میں بری طرح کٹھک رہا ہے اور ہر کوئی اس کو ناکام بنانے کے لئے قسم قسم کے منصوبے تشکیل و ترتیب دے رہا ہے۔۔ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے خیال میں کوئی مسلمان 9/11 کے واقعے کا ذمّہ دار نہیں۔ یہ یہودیوں کا کیا دھرا ہے تاکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے مضبوط بہانہ تلاش کیا جاسکے دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ عرصہ دراز سے زیر التواء ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر بڑا کام ہوا، لیکن تاحال ایک متفقہ صورت سامنے نہیں آئی۔پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر دینی مدارس کو یہ اطمینان ہو کہ حکومت ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ مکمل تعاون کریں گے۔ دینی مدارس کو تعلیمی حوالے سے دیکھا جائے، نہ کہ لاء اینڈ آرڈر (امن و امان) کے حوالے سے۔ 7 ستمبر 2015 ء کے اہم ترین اجلاس کے تناظر میں اُمید کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کا بہتر حل نکال لیا جائے گا۔ہمارے ہاں دینی مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے ہیں جو وزارتِ صنعت کے ماتحت آتی ہیں، یعنی ہزاروں دینی مدارس کا پورا نظام وزارتِ صنعت وتجارت کے تحت آتا ہے۔ ظاہر ہے یہ خاصی مضحکہ خیز بات ہے۔ دینی مدارس بنیادی طور پر دین کی تعلیم دینے والے ادارے ہیں، ان کے لیے وزارتِ تعلیم یا وزاتِ مذہبی امور کے تحت انتظام ہونا چاہیے، وزارتِ صنعت کی کیا تک ہے؟ دراصل سوسائٹی ایکٹ کے تحت رفاہی، خیراتی ادارے رجسٹرڈ ہوتے ہیں۔ مدارس کا مؤقف ہے کہ ہم بھی چونکہ ویلفیئر کا کام کرتے ہیں اس لیے ہمیں بھی سوسائٹی ایکٹ کے تحت آنا چاہیے۔دینی مدارس کی 5 بڑی تنظیمیں رہی ہیں، ان میں سے ایک وفاق المدارس العربیہ پاکستان یا عام زبان میں وفاق المدارس کہلاتا ہے اور دیو بندی مدارس اس سے منسلک ہیں۔ مولانا حنیف جالندھری اس کے روح رواں اور ناظم اعلیٰ ہیں، آج کل مفتی تقی عثمانی صاحب اس کے صدر ہیں اور مولانا فضل الرحمان ہمیشہ وفاق المدارس کو بھرپور انداز میں اپنی سپورٹ فراہم کرتے ہیں اور وفاق کے مدارس اور ان کے طلبہ مولانا کے دست و بازو بنتے ہیں۔
دوسری بڑی اور اہم تنظیم تنظیم المدارس اہل سنت ہے جس سے بریلوی مدارس منسلک ہیں اور مفتی منیب الرحمان صاحب اس کے صدر ہیں۔ تیسری تنظیم اہلِ حدیث یا سلفی مدارس کی تنظیم وفاق المدارس السلفیہ کے نام سے ہے اور پروفیسر ساجد میر اس کے صدر ہیں۔ جبکہ چوتھی ان مدارس کی ہے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے، ان کی تنظیم رابطتہ المدارس الاسلامیہ ہے اور مولانا عبدالمالک اس کے صدر ہیں۔ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے ساتھ شیعہ مدارس منسلک ہیں۔
ان پانچوں تنظیموں کو مدارس کے بورڈ کہہ لیں، یہ اپنے ساتھ منسلک بے شمار مدارس کے طلبہ کے امتحان لیتے ہیں۔ یہ پانچوں تنظیمیں ’اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان‘ کے پلیٹ فارم سے اکٹھی ہوکر اپنے مسائل وغیرہ پیش کرتی ہیں۔2019 میں جب عمران خان وزیراعظم تھے، تب حکومت نے اتحاد تنظیمات مدارس سے مذاکرات کے بعد 29 اگست 2019 کو ایک معاہدہ کیا جس کے تحت مدارس کو اب سے وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے تحت رجسٹرڈ کیا جائے گا۔ یہ وزارت ہی ملک بھر سے مدارس، جامعات کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کی واحد مجاز اتھارٹی ہوگی,معاہدے کے تحت وہ مدارس اور جامعات جو وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہوں گے، وفاقی حکومت انہیں بند کرنے کی مجاز ہوگی۔ اسی وزارت کے تحت تمام رجسٹرڈ مدارس کو شیڈول بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم معاونت کرے گی,ایک اور اہم مسئلہ جس کا سامنا دینی مدارس کو تھا، وہ غیر ملکی طلبہ سے متعلق تھا۔ اس معاہدے میں کہا گیا کہ ان رجسٹرڈ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کے لیے تعلیمی ویزا دے گی۔ ایک شق مدارس میں عصری تعلیم (میٹرک، ایف اے وغیرہ) کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بھی تھی۔ اس مدارس رجسٹریشن بل پر پانچوں تنظیموں کے ذمہ داران یعنی مفتی تقی عثمانی صاحب، مولانا حنیف جالندھری، پروفیسر ساجد میر، مفتی منیب الرحمان، مولانا عبدالمالک وغیرہ نے دستخط کیے۔ یہ معاہدہ 5 سال پرانا ہےمولانا فضل الرحمان نے 26ویں آئینی ترمیم پر حکومتی معاونت کی اور اسے منظور کرانے میں مدد کی تو انہوں نے اپنی روایتی مدارس اور دینی طلبہ کی آڈینس کو مطمیئن کرنے کے لیے ترمیم کے ساتھ ہی دینی مدارس رجسٹریشن کا ایک بل (ایکٹ) بھی منظور کروایا۔اس میں ایک بڑی بنیادی قسم کی شق یہ ہے کہ دینی مدارس اب وزارتِ تعلیم کے بجائے پھر سے وزارتِ صنعت وپیدوار کے تحت رجسٹرڈ ہوں گے۔یہ بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے تو ترمیم کے ساتھ اسی دن منظور ہوگیا، تاہم جب صدر کے پاس بھیجا گیا تو انہوں نے اسے روک لیا آصف زرداری نے اعتراض میں مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا، انہوں نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 اور اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 کا حوالہ دیا۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ دونوں قوانین کی موجودگی میں نئی قانون سازی ممکن نہیں ہو سکتی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہے۔ انہوں نے اعتراض عائد کیا کہ نئی ترامیم کا اطلاق محض اسلام آباد میں ہونے کے حوالے سے کوئی شق بل میں شامل نہیں، مدارس کو بحیثیت سوسائٹی رجسٹر کرانے سے ان کا تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ آصف علی زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراض کے مطابق نئے بل کی مختلف شقوں میں میں مدرسے کی تعریف میں تضاد موجودہے، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیہ میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نئے بل میں مدرسہ کی تعلیم کی شمولیت سے 1860 کے ایکٹ کے ابتدائیہ کے ساتھ تضاد پیدا ہو گا، اس قانون کے تحت مدرسوں کی رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہو گا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ایک ہی سوسائٹی میں بہت سے مدرسوں کی تعمیر سے امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہو گا، سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایسے مفادات کے ٹکراؤ سے عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔مدارس بل ہے کیا ؟20 اکتوبر 2024 کو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جس میں ذیل میں درج شقیں شامل کی گئی ہیں۔ بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ہے، بل میں متعدد شقیں شامل ہیں۔ بل میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی ہے۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔ شق 21۔اے میں کہا گہا ہے کہ وہ دینی مدارس جو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نافذ ہونے سے قبل قائم کیے گئے ہیں، اگر رجسٹرڈ نہیں تو انہیں 6 ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ شق بی میں کہا گیا ہے کہ وہ مدارس جو اس بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جائیں گے انہیں ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی، بل میں واضح کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔ بل کی شق 2 میں کہا گیا ہے کہ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانی ہوگی۔ بل کی شق 3 کے مطابق کہ ہر مدرسہ کسی آڈیٹر سے اپنے مالی حساب کا آڈٹ کروانے کا پابند ہوگا، آڈٹ کے بعد مدرسہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کرانے کا بھی مجاز ہوگا۔ بل کی شق 4 کے تحت کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔ تاہم مذکورہ شق میں مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قران و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں ہے۔ بل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔ بل کی شق 6 میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی بھی مدرسے کو اس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔ بل کی شق نمبر 7 کے مطابق ایک بار اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی دینی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مذکورہ شق میں دینی مدرسے سے مراد مذہبی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم شامل ہے یا کسی بھی دوسرے نام سے پکارے جانے والا ادارہ جس کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو۔ترجمان جمعیت علمائے اسلام (ف) اسلم غوری نے صدر مملکت کی جانب سے مدارس بل اٹھائے گئے اعتراضات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ صدر آصف علی زرداری کے مدارس بل پر اعتراضات حیران کن ہیں۔ صدر مملکت کے اعتراضات کا طریقہ قانون کے مطابق نہیں، صدر آصف زرداری کے اعتراضات آئین میں دی گئی مدت کے اندر نہیں اٹھائے گئے۔ اس سےقبل جے یو آئی (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے مدارس بل منظور نہ کیے جانے کی صورت میں وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کا عندیہ دیا تھا،
واضح رہے کہ رہنما جے یو آئی (ف) حافظ حمد اللہ نے کہا تھا کہ مدارس رجسٹریشن بل پر صدر کے اعتراضات سے بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔صدر مملکت کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات سے ثابت ہوا کہ پارلیمنٹ پاکستان کا نہیں فیٹف کا پارلیمنٹ ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنماکے بیان پر وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مدارس بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات میں فیٹف کا ذکر ہے اور نہ ہی کوئی تعلق، بل پر جو اعتراضات لگائے ہیں وہ قانونی اور آئینی ہیں۔
عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ قانونی اور آئینی معاملات پر سیاست کرنا کسی کے حق میں نہیں، مدارس کی رجسٹریشن کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) سے جوڑنا بے سروپا تخیّل اور خیال آرائی کے مترادف ہے۔ قانون سازی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے، صدر مملکت نے آئینی اعتراضات لگائے ہیں اوران کی تصحیح بھی آئینی طور پرپارلیمان سے ہونی ہے۔اس معاملے پر غیر ضروری بیان بازی اور تنقید برائے تنقید سے صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مدارس سے متعلق بل پیچیدگیوں کےباعث قانونی شکل اختیار نہیں کرسکا، مدارس پر فضل الرحمٰن سمیت سب کے لیے قابل قبول حل نکالنے کی کوشش کریں گے۔مدارس کی رجسٹریشن و اصلاحات سے متعلق علما و مشائخ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ مدارس کو قومی دھارے میں لانے اور ان کی رجسٹریشن کے لیے وسیع ترمشاورت کے بعد نظام وضع کیا گیا، اس نظام کے تحت 18ہزار مدارس نے رجسٹریشن کرائی۔ جب بھی کوئی قانون بنتا ہے، اس کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے، جب مدارس کو وفاقی وزارت تعلیم کے ماتحت کیا گیا تو اس کے فوائد آئے، اسی وزارت تعلیم کے تحت ایچ ای سی اور تمام جامعات ہیں۔ مدارس کی رجسٹریشن میں علمائے کرام کی کاوشیں شامل ہیں، مدارس کی رجسٹریشن کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے، خوشی ہوتی ہے کہ مدارس کے طلبا ڈاکٹر، انجینئر بن رہے ہیں۔حکومت علمائے کرام کی تجاویز پر مشاورت کرے گی، مولانا فضل الرحمان قابل احترام ہیں، ان کی تجاویز بھی سنیں گے۔اس موقع پر وفاقی وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ملک میں مدارس کی موجودگی قوم کے لیے حوصلے کا باعث ہے،قوم کا بہت بڑا بوجھ مدارس نے اٹھا رکھا ہے، رجسٹریشن کا مقصد مدارس کو کنٹرول کرنا نہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ علامہ راغب نعیمی نے کہا کہ مدارس کا معاملہ مذہبی ہے، اسے اکھاڑا نہ بنایا جائے، اب مدارس کے نظام کو کوئی بیرونی خطرہ نہیں، ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم نے بہت سے مسائل حل کیے ہیں۔ دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلبا کی ڈگری ایم اے کے مساوی دی جاتی ہے، اسے بی ایس کا درجہ دیا جائے۔اس موقع پر علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ وفاقی وزرا سے درخواست ہے کہ موجودہ نظم کو برقرار رکھا جائے اور مدارس کو وزارت تعلیم سے ہی منسلک رکھا جائے۔ مدارس سے متعلق کسی بھی قانون سازی میں تمام مدارس کے بورڈز کو اعتماد میں لیا جائے۔ جو معاہدہ ہوا تھا اس پر ہمارے نہیں ان کے اکابرین کے دستخط ہیں، مدارس میں لاکھوں طلبا ہیں، قوت سب کے پاس ہے، ہم ٹکراؤ نہیں چاہتے، کیا آئے روز نئے قوانین بنیں گے؟ انہوں نے کہاکہ ہر 5 سال بعد قانون بنے گا تو مدارس کے طلبہ متاثر ہوں گے۔ واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نےپشاور میں کارکنوں مدارس کے حوالے سے بل پر حکومتی وعدہ خلاف پر اسلام آباد کی جانب مارچ کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی تھی۔سربراہ جے یو آئی نے کہا تھا آئینی ترمیم کے وقت کہا گیا کہ ایک چیز جو طے ہو چکی ہے اس کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظور کیا جائے، کراچی میں چیئرمین پیپلز پارٹی سے ملاقات میں آئینی ترمیم اور دینی مدارس کے بل پر 5 گھنٹے بات چیت کی جس کے بعد ہمارا اتفاق رائے ہوگیا۔.واضح رہے کہ اکتوبر 2024 کے آخری ہفتے میں جب پاکستان کی پارلیمان نے 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تو اُس موقع پر جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو ’دینی حلقوں کے دو اہم مطالبات‘ پارلیمان سے منظور کروانے پر ملک کے متعدد مذہبی حلقوں اور گروہوں کی جانب سے تحسین پیش کی گئی۔اُن دو مطالبات میں ایک تو پاکستان سے سود کے نظام کا بتدریج خاتمہ تھا جبکہ دوسرا اہم مطالبہ ملک میں دینی مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کو محکمہ تعلیم کی بجائے پرانے سوسائیٹیز ایکٹ 1860کے ماتحت لانا تھا۔تاہم دینی مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل (سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024) جب پارلیمان سے منظوری کے بعد فائنل منظوری کے لیے ایوانِ صدر پہنچا تو صدر آصف علی زرداری نے اس کے مسودے پر اعتراض لگا کر اسے واپس پارلیمان کو بھیج دیا۔اور یہیں سے اس معاملے کی ابتدا ہوئی خیال رہے کہ تحریک طالبان، القاعدہ اور ان جیسے دیگر شدت پسند گروہوں کے کئی اراکین پاکستان میں قائم دینی مدارس سے منسلک رہے ہیں اور اس کے بارے میں رپورٹس بھی شائع ہوتی رہی ہیں۔انہی وجوہات کی بنیاد پر پہلے سابق صدر جنرل مشرف، اُن کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت اور بعدازاں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ترتیب دیے گئے نیشنل ایکشن پلان میں دینی مدارس کے نظام میں إصلاحات کو ناگزیر قرار دیا گیا۔اکتوبر 2019 میں پاکستان تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں حکومت نے وزارت داخلہ، سیکیورٹی ایجنسیوں، صوبوں، اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ پانچ سال سے زائد طویل مشاورت کے بعد دینی مدارس کو ’تعلیمی ادارے‘ سمجھتے ہوئے انھیں محکمہ تعلیم کے تحت ریگولیٹ کرنے کا چند مذہبی گروہوں کا مطالبہ تسلیم کر لیااس فیصلے کا چاروں مرکزی اسلامی مسالک کی نمائندہ تنظیموں (بورڈز) نے خیر مقدم کیا۔ اُسی کے تحت رجسٹریشن کے لیے وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت ایک نیا ڈائریکٹوریٹ قائم کیا گیا جس کا نام ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجیس ایجوکیشن ہےمحکمہ ریلیجیس ایجوکیشن کے افسران کے مطابق اس ڈائریکٹوریٹ کے تحت مدارس تعلیمی ادارے سمجھتے ہوئے ان کی رجسٹریشن بھی وزارت تعلیم میں ہوتی ہے، اس کے علاوہ ان کا سالانہ آڈٹ ہو تا ہے اور ان کے نصاب میں مرحلہ وار جدید علوم کو بھی شامل کیا جا رہا ہے، اس محکمے کے تحت مدارس میں طلبا کو گرانٹس بھی دی جاتی ہیں جبکہ غیرملکی طلبا کو ویزا ایشو کیا جاتے ہیں اور مدارس کو بینک اکاونٹس کھولنے میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ڈائریکٹوریٹ کے ملک بھر میں 16 دفاتر قائم ہیں جہاں مدارس کی رجسٹریشن کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ملک میں اس وقت ایک اندازے کے مطابق 18 ہزار مدارس اسی ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے رجسٹرڈ ہیں، جن میں ان مدارس کے مطابق 20 لاکھ سے زائد طلبا زیرتعلیم ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سمیت کئی دیگر مسالک کے مدارس ان نئے نظام کے تحت رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ اور اب وہ ایک بار پھر سوسائیٹز ایکٹ 1860کے تحت مدارس کی رجسٹریشن کروانا چاہتے ہیں جیسا کہ ماضی میں ہو رہا تھا،
20 اکتوبر 2024 کو مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا۔
بل کو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کا نام دیا گیا ، بل میں متعدد شقیں شامل تھی۔
بل میں 1860 کے ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کرکے ’دینی مدارس کی رجسٹریشن‘ کے نام سے ایک نئی شق شامل کی گئی تھی۔
اس شق میں کہا گیا تھا کہ ہر دینی مدرسہ چاہے اسے جس نام سے پکارا جائے اس کی رجسٹریشن لازم ہوگی، رجسٹریشن کے بغیر مدرسہ بند کردیا جائے گا۔
شق 21۔اے میں کہا گیا تھاکہ وہ دینی مدارس جو ’سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی ایکٹ 2024‘ کے نافذ ہونے سے قبل قائم کیے گئے ہیں، اگر رجسٹرڈ نہیں تو انہیں 6 ماہ کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
شق بی میں کہا گیا تھا کہ وہ مدارس جو اس بل کے نافذ ہونے کے بعد قائم کیے جائیں گے انہیں ایک سال کے اندر اپنی رجسٹریشن کرانی ہوگی، بل میں واضح کیا گیا تھا کہ ایک سے زائد کیمپس پر مشتمل دینی مدارس کو ایک بار ہی رجسٹریشن کرانی ہوگی۔
بل کی شق 2 میں کہا گیاتھا کہ ہر مدرسے کو اپنی سالانہ تعلیمی سرگرمیوں کی رپورٹ رجسٹرار کو جمع کرانی ہوگی۔
بل کی شق 3 کے مطابق کہ ہر مدرسہ کسی آڈیٹر سے اپنے مالی حساب کا آڈٹ کروانے کا پابند ہوگا، آڈٹ کے بعد مدرسہ رپورٹ کی کاپی رجسٹرار کو جمع کرانے کا بھی مجاز ہوگا۔
بل کی شق 4 کے تحت کسی دینی مدرسے کو ایسا لٹریچر پڑھانے یا شائع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جو عسکریت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی منافرت کو فروغ دے۔
تاہم مذکورہ شق میں مختلف مذاہب یا مکاتب فکر کے تقابلی مطالعے، قران و سنت یا اسلامی فقہ سے متعلق کسی بھی موضوع کے مطالعے کی ممانعت نہیں۔
بل کی شق 5 کے مطابق ہر مدرسہ اپنے وسائل کے حساب سے مرحلہ وار اپنے نصاب میں عصری مضامین شامل کرنے کا پابند ہوگا۔
بل کی شق 6 میں کہا گیا تھا کہ ایکٹ کے تحت دینی مدارس کی رجسٹریشن کے لیے کسی بھی مدرسے کو اس وقت نافذالعمل کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن درکار نہیں ہوگی۔
بل کی شق نمبر 7 کے مطابق ایک بار اس ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے بعد کسی بھی دینی مدرسے کو کسی دوسرے قانون کے تحت رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مذکورہ شق میں دینی مدرسے سے مراد مذہبی ادارہ یا جامعہ دارالعلوم شامل ہے یا کسی بھی دوسرے نام سے پکارے جانے والا ادارہ جس کو دینی تعلیم کے فروغ کے لیے قائم کیا گیا ہو۔ترمیمی بل کے ذریعے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ریگولیشن کے حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے دوسری طرف بل کو اب صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرایا جا سکتا ہے