پشاور (اردو ٹائمز) سانحہ آرمی پبلک سکول کے 10 سال; غم تازہ تاحال
……(اصغر علی مبارک)
شہدا نے اپنے خون سے امن کی شمع روشن کی ہے شہدائے آرمی پبلک سکول کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا سانحہ آرمی پبلک سکول کو 10 سال بیت گئے لیکن والدین کے غم آج بھی تازہ ہیں، بچوں کی یاد لواحقین کو رلا دیتی ہے اور انہوں نے اپنے بچوں کے یونیفارم، کتابیں، سکول بیگز اور دیگر سامان سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ میں وہی درد محسوس کر سکتا ہوں جو شہداء کے لواحقین محسوس کر رہے ہیں۔واضع رہےکہ میرے حقیقی بھائی شہیدمظہر علی مبارک بھی دہشتگردی کے ایک واقعہ میں25 دسمبر 2023 کو شہید ہوگئےتھے۔ 16 دسمبر 2014 کا سانحہ بہت گہرا زخم ہے جس کا بھرپانا ممکن نہیں ہے۔ شہداء کے لواحقین جب بھی اپنے پیاروں کو یاد کرتے ہیں تو غم سے نڈھال ہوجاتے ہیں تاہم جب قربانی دینے والے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے تو لواحقین کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے نتیجے میں جہاں ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا وہیں علم دشمن عناصر کے ناپاک ارادے بھی خاک میں مل گئے۔پاکستان کی 77 سالہ تاریخ مختلف حادثات و سانحات سے بھری پڑی ہے تاہم کچھ واقعات ایسی بھی ہیں جو ہم شاید کبھی بھلا نہ پائیں۔ 16 دسمبر کا دن بھی تاریخ کے انہی واقعات میں سے ہے جہاں ایک طرف 1971 میں دو لخت ہوئے پاکستان کا غم منایا جاتا تھا وہی سال 2014 میں اسی روز ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کی دسویں برسی 16 دسمبر 2024
کو منائی گئی ، اس دن کو یاد کرتے ہوئے شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔
صدر مملکت آصف علی زرداری نے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے 10 سال ہونے پر خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے شہدائے اے پی ایس کو خراج عقیدت پیش کیا۔صدر مملکت نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول جیسے واقعات دہشتگردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔ سانحہ اے پی ایس نے ہمیں دہشتگردی کے خلاف بحیثیت قوم متحد کیا۔وزیراعظم شہبازشریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ وقت اس سانحے اور ان معصوم بچوں کی جدائی کا صدمہ مٹا نہیں سکتا۔ بیرونی ملک دشمن عناصر کی ایما پر دہشتگرد معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سانحہ آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پشاورکی دسویں برسی پر ملک بھر میں دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ شمعین روشن کی گئیںاور زبر دست خراج عقیدت پیش کیا گیا۔دریں اثنا قومی اسمبلی نے سانحہ اے پی ایس کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی جبکہ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی۔ قرارداد پیپلز پارٹی کی شازیہ مری نے پیش کی، جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ اے پی ایس کے شہید بچوں کی قربانی نے پورے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف متحد کیا۔ تعلیمی اداروں کی یکسوئی بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ پاکستان کی حکومت ایوان اور عوام اعادہ کرتے ہیں کہ دہشتگردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا، یہ ایوان دہشتگردی کے خلاف فورسزکی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان پاکستان کو دہشت گردی سے مکمل پاک کرنے کا اعادہ کرتا ہے۔ سینٹ میں شہداء آرمی سکول کے لئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے دعا کرائی اور کہا دعا کے ساتھ دوا بھی کی جائے۔ ادھر پنجاب اسمبلی میں بھی سانحہ اے پی ایس کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ متن میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے۔ واقعہ میں دلیری کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی نے معمول کا ایجنڈا معطل کرنے کی قرارداد پر اتفا ق رائے سے منظور کر لی۔ پنجاب اسمبلی میں سانحہ اے پی ایس پر قرارداد متفقہ طورپر منظور کر لی گئی۔حکومتی رکن راحیلہ خادم حسین کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ دس سال قبل پشاور میں سانحہ اے پی ایس رونما ہوا،سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات قوم کو خوفزدہ نہیں کر سکتے،ایسے دہشتگردوں کو رعایت نہ دی جائے بلکہ سخت سے سخت سزا دی جائے۔ عبدالقادر پٹیل نے کہا سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اے پی ایس کا توہم نے سودا کیا۔ سانحہ میں ملوث ملزموں کو واپس لا کر بسایا گیا۔ غفور حیدری نے کہا اے پی ایس جیسے واقعات دوبارہ نہیں ہونے چاہئیں۔ حامد رضا نے کہا پاکستان میں کس قاتل کو آج تک سزا ہوئی ہے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے شہداء کو حرف عقیدت پیش کیا اورکہا کہ سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کو 10 سال گزر چکے لیکن دکھ آج بھی زندہ ہیں۔ 16 دسمبر 2014 کی سیاہ صبح ہر پاکستانی کے دل پر نقش ہے-دہشت گردوں نے 147 معصوم بچوں اور ان کے اساتذہ کو سفاکیت کا نشانہ بنایا۔ننھے طلباء جو علم کی روشنی سے اس ملک کے مستقبل کو روشن کرنا چاہتے تھے،درندگی کی نذر ہوگئے۔وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ سانحہ 16دسمبرصرف سکول پر ہی نہیں بلکہ انسانیت، تعلیم اور پاکستان کے روشن مستقبل پر حملہ تھا۔ معصوم طلباء اور اساتذہ کی قربانی نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہر صورت ناگزیر ہے- اے پی ایس شہداء ہماری قوم کے ہیرو ہیں۔سانحہ اے پی ایس کے والدین اور اہل خانہ کا حوصلہ اور صبر قابل تحسین ہے۔سانحہ اے پی ایس کے 147 شہدا ءکا خواب بہتر پاکستان تھا، ہماری ذمہ داری ہے اسے حقیقت میں بدلیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کرکے ہی دم لیں گے۔
سانحہ اے پی ایس نہ صرف پاکستان کی تاریخ کا ایک المناک سانحہ تھا بلکہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کو نیا عزم بھی دیا۔ آج بھی اس واقعے کی یادیں دلوں میں زندہ ہیں، اور پاکستانی عہد کرتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول، پشاور ، پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جب 16 دسمبر 2014ء کو تحریک طالبان پاکستان کے 7 دہشت گردوں نے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں میں آرمی پبلک سکول میں 132 طلبہ سمیت 144 افراد کو دہشت گری کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا ۔ ان میں بیشتر وہ طلباء تھے جو آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت کے تھے اور اس وقت تربیت کے دوران آڈیٹوریم میں موجود تھے۔ حملے میں اسکول کے اساتذہ اور دیگر عملہ بھی شہید ہو گیا تھا۔اس دلخراش واقعے نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ واقعے کی ذمے داری کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی جس کے بعد فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن ضربِ عضب مزید تیز کر دیا تھا۔اس واقعے کے بعد پاک فوج کی جانب سے جاری آپریشن ضرب عضب کو مزید تیز کیا گیا تھا اور یہی نہیں بلکہ واقعے کے کچھ دن بعد ہی اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ملک کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔نواز شریف نے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) کا اعلان کیا تھا اور اس پر ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان سے ملاقات کے بعد اتفاق رائے ہوا تھا۔واقعے کے بعد پاکستان کے سول اور فوجی حکام نے مشاورت کے ساتھ 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا تھا جس کے تحت دہشت گردوں کو فوری سزائیں دینے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے علاوہ پھانسی کی سزا پر عمل درآمد پر عائد غیر اعلانیہ پابندی بھی ہٹا لی گئی تھی ۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کی روک تھام کے لیے صوبائی سطح پر سول اور فوجی حکام پر مشتمل اپیکس کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں ۔ ملک کی مختلف جیلوں میں قید سزائے موت کے منتظر قیدیوں کو تختۂ دار پر لٹکایا جانے لگا تھاجب کہ فوجی عدالتوں سے بھی کئی دہشت گردوں کو سزائیں سنائی گئی تھیں۔ حکام کے مطابق نیشنل ایکشن پلان کے تحت ملک بھر میں 21 ہزار 500 سے زائد کارروائیاں کی گئی تھیں۔ ان کارروائیوں میں 1300 عسکریت پسند ہلاک اور 800 زخمی ہوئے جب کہ 5500 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ درجنوں دہشت گردوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات بھی چلائے گئے اور سزائیں سنائی گئی تھیں۔ فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے لگ بھگ دو درجن سے زیادہ لوگوں کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ تقریباً 200 ملزمان کی سزاؤں کو پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ لیکن پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ نے حکمِ امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔پشاور میں آرمی چھاؤنی کے وسط میں موجود آرمی پبلک اسکول پر حملے نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی پر سوالات اُٹھا دیے جس کے بعد تعلیمی اداروں میں اضافی سیکیورٹی تعینات کرنے کے علاوہ متعدد دیگر اقدامات کیے گئےتھے۔ اسکولوں، کالجز، یونیورسٹیز کی دیواریں بلند کرنے کے علاوہ خاردار تاروں کی تنصیب اور سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب بھی کی گئی تھی۔ ابتداً پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے واقعے کی مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ تاہم سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کے اصرار پر 2018 میں پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس ابراہیم خان کی سربراہی میں عدالتی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ کمیشن نے سانحے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین، پولیس اور فوجی افسران، اسکول کی سیکیورٹی پر تعینات اہل کاروں سمیت 150 کے لگ بھگ افراد کے بیانات قلم بند کیےتھے۔ عدالتی کمیشن نے دو برس بعد اپنی رپورٹ مکمل کی جسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرا دیا گیا تھا۔ اے پی ایس اسکول حملے کے متاثرین کی تنظیم کے صدر فضل خان نے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدالت کی طرف سے جو کمیشن بنایا گیا تھا، اس میں ذمہ داروں کو سزا دینے کے بجائے تعریف کی گئی تھی ۔ عدالتی کمیشن نے اپنی 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اسکول کی سیکیورٹی پر سوالات اُٹھانے کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کے کردار، انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے سہولت کار بننے کے معاملے کا بھی تفصیلی احاطہ کیاتھا۔ پہنچنے کو بھی لمحۂ فکریہ قرار دیا گیا تھا۔ یہ رپورٹ جولائی 2020 میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائی گئی جس نے اسے عام کرنے کا حکم دیاتھا۔ عدالتی کمیشن نے اسکول کے گردو نواح کی آبادی میں موجود بعض افراد کے سہولت کار بننے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ جب اپنے ہی غدار ہو جائیں تو پھر ایسی تباہی کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ دہشت گرد اسکول کی عقبی دیوار سے بغیر کسی مزاحمت کے اسکول کے اندر داخل ہوئے، اگر اُنہیں وہیں روکنے کی کوشش کی جاتی تو اتنی بڑی تباہی نہ ہوتی۔ رپورٹ میں کہا گیا
تھاکہ انسدادِ دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) نے حملے سے قبل ہی ایک تھریٹ الرٹ جاری کیا تھا جس میں واضح کیا گیا تھا کہ آپریشن ضربِ عضب کی ‘کامیابی’ کے باعث فوجی افسران اور اُن کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ عدالتی کمیشن نے رپورٹ میں لکھا تھاکہ اس ایک واقعے نے دہشت گردوں کے خلاف فوج کی کامیابیوں پر پانی پھیر دیاتھا۔ ستمبر 2020 میں سانحہ اے پی ایس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئےتھے کہ اس طرح کے سانحات میں نچلے افسران کو قربانی کا بکرا بنانے کی روایت ختم ہونی چاہیے۔ لہذٰا اب اُوپر سے کارروائی کا آغاز ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئےتھے کہ دہشت گرد اس حملے کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ لیکن سیکیورٹی اداروں کو اتنی بڑی منصوبہ بندی کا پہلے سے علم ہونا چاہیے تھا۔ سال 2017 میں پاک فوج نے کالعدم تحریکِ طالبان کے ترجمان احسان اللہ کی گرفتاری کا اعلان کیا تھاجنہوں نے سانحۂ آرمی پبلک اسکول واقعے کی ذمے داری قبول کی اور کہا تھاکہ وہ ٹی ٹی پی سے الگ ہو چکے ہیں۔ البتہ جنوری 2018میں اُن کی فوجی تحویل سے فرار کی خبریں سامنے آئیں جس کی بعد ازاں اس وقت کے وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے تصدیق کی تھی ۔ سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ والدین نے احسان اللہ احسان کے فرار کی مذمت کرتے ہوئے اسے سیکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیاتھا۔ اس وقت کےپاکستان کے وزیرِ اعظم نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھاکہ حکومت کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ اس بیان پر اے پی ایس اسکول حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کی تنظیم نے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ وہ اپنے بچوں کے قاتلوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتے۔ تنظیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی تھی کہ اس وقت کے آرمی چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی ، کور کمانڈر پشاور ، وزیرِ داخلہ اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ اب بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرِ سماعت ہے اور عدالت نے ایک بار اس واقعے کے ذمے داروں کے تعین کا حکم دیا تھا۔علاوہ ازیں 25 ستمبر 2020 کو سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ اور اٹارنی جنرل کے کمنٹس کو پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اوپر سے کارروائی کا آغاز کریں، ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچ سکیں۔ عدالت میں موجود شہید بچوں کے والدین نے کہا تھا کہ یہ واقعہ دہشت گردی نہیں ٹارگٹ کلنگ تھی، ہمارے بچے واپس نہیں آسکتے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کسی اور کے بچوں کے ساتھ ایسا واقعہ نہ ہو۔ انہوں نے کہاتھا کہ ہم زندہ دفن ہوچکے ہیں، ساری عمر نیچے والوں کا احتساب ہوا، اس واقعے میں اوپر والے لوگوں کو پکڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کو ہم چلائیں گے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ المیہ ہے کہ ہر بڑے سانحہ کا ذمہ دار چھوٹے لوگوں کو قرار دے دیا جاتا ہے، بڑوں سے کچھ پوچھا نہیں جاتا، یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔ بعد ازاں عدالتی حکم پر سانحے کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ پبلک کردی گئی تھی جس میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کو سیکیورٹی کی ناکامی قرار دیا گیا تھا۔