کراچی (اردو ٹائمز) کراچی کے پانی کا بحران: وعدے، دعوے اور ناقص انتظام کی وجہ سے پانی کی کمی کی داستان
کراچی (اردو ٹائمز)( رپورٹ : پیر بخش نوناری )کراچی سندھ حکومت کا دعویٰ ہے کہ کراچی کو روزانہ 1,200 کیوسک (646 ایم جی ڈی) پانی فراہم کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ شہر کو اس وقت صرف 500 ایم جی ڈی پانی بمشکل مل رہا ہے۔ 150 ملین گیلن روزانہ پانی کی پمپنگ اس وقت بھی موجود ہے جبکہ پانی دستیاب ہے، پمپنگ کی 500 ایم جی ڈی کی صلاحیت بھی 2020 تک موجود نہیں تھی صرف 400 ایم جی ڈی پانی کراچی کو سپلائی کیا جا رہا تھا ، جبکہ ترسیل کا نظام بھی فعال ہے۔ یہ جان بوجھ کر فراہم نہ کیے جانے کا معاملہ حکومتی نااہلی اور بدانتظامی کو ظاہر کرتا ہے۔کراچی کے سب سے اہم ذریعہ ہے یعنی دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کی صلاحیت اور سپلائی کے درمیان فرق سنگین صورتحال کو واضح کرتا ہے۔ حکومت کے 646 ایم جی ڈی پانی فراہم کرنے کے دعوے حقائق کے برعکس ہے 30 ایم جی ڈی پانی اسٹیل مل اور پورٹ قاسم کے لیے مختص ہےجنوری 2020 میں انگریزی روزنامہ ڈا ن اخبار میں خبر شائع ہوئی جس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے تسلیم کیا کہ دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کے نئے یونٹ کے افتتاح کے بعد کراچی کو اب ٹوٹل 500 ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہ پمپنگ اسٹیشن 100 ایم جی ڈی اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اس میں سے صرف 50 ایم جی ڈی کراچی کو فراہم کیا گیا، جبکہ باقی پانی ملحقہ علاقوں میں بھیج دیا گیا۔ یہ منصوبہ بغیر کسی نئے مزید پانی کی ترسیل کے نظام یعنی کسی بھی ذریعے سے کنجھر جھیل سے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن تک کوئی مزید پانی کے نظام نہیں بنایا گیا مطلب یہ کہ یہ سو ایم جی ڈی پانی موجود تھا لیکن پمپنگ کی کیپیسٹی نہ ہونے کی وجہ سے سپلائی نہیں ہو رہا تھا اس وجہ سے ایک نیا پمپنگ اسٹیشن بنانا پڑا جو کہ سو ایم جی ڈی پانی پمپ کر رہا ہے اب بھی صرف 500 ایم جی ڈی بمشکل پانی سپلائی ہو رہا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ 2020 سے پہلے صرف 400 ایم جی ڈی پانی سپلائی ہو رہا تھا اور اب بھی 646 ایم جی ڈی پانی سپلائی کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا یہ حکومت کی انتہائی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کو ظاہر کرتا ہے یعنی 100 ملین گیلن کی اضافی پمپنگ کے بعد بھی اب بھی 150 ملین گیلن روزانہ پانی کم فراہم کیا جا رہا ہے جس کی تصدیق کی جا سکتی ہے اور وزیراعلی سندھ کے بیان کے بعد کوئی ابہام ویسے بھی باقی نہیں رہتا اس کے علاوہ، رساؤ کی وجہ سے 50 ایم جی ڈی پانی ضائع ہو جاتا ہے یعنی بمشکل 450 ایم جی ڈی پانی کراچی کو ملتا ہے
کے-4 واٹر سپلائی منصوبہ، جو کراچی کو 650 ایم جی ڈی اضافی پانی فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا جس کا پہلا فیز جو کہ 260 ملین گیلن روزانہ پانی کی فراہمی کے لیے ہے، تاخیر اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ پانی کے ناقص انتظام اور دانستہ غفلت کی وجہ سے کراچی کے شہری شدید قلت کا شکار ہیں۔ ۔پمپنگ اسٹیشن بنانے کا کام صرف وفاقی یا صوبائی گورنمنٹ ہی کر سکتی ہے واٹر کارپوریشن کے اپنے مالی وسائل تو انتہائی کم ہے جو کہ سسٹم کی مینٹیننس اور ملازمین کی تنخواہ پنشن کے لیے بمشکل پورے ہوتے ہیں جبکہ ملازمین کے بقایہ جات کی مد میں سات ارب روپے واجب ادا ہیں صرف گورنمنٹ ارگنائزیشن کے اوپر واٹر کارپوریشن کے تقریبا 20 ارب روپے کے بقایہ جات ہیں لوگ صرف واٹر کارپوریشن پر ہی تنقید کرتے ہیں واٹر کارپوریشن انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اصل میں صرف 40 فیصد پانی ٹوٹل ضروریات کا فراہم کیا جا رہا ہے اس بحران کو حل کرنے اور پانی کے نظام کی مزید بگڑتی ہوئی صورتحال کو روکنے کے لیے صوبائی اور وفاقی گورنمنٹس کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے صرف بیانات سے پانی نہیں ائے گا