وزیر اعظم شہباز شریف کا یونان کشتی حادثہ کا سخت نوٹس، آج یوم سوگ
.وزیرِ اعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے واقعے کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دینے اور یوم سوگ آج منانے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم آفس میڈیا ونگ کی جانب سے اتوار کو جاری بیان کے مطابق یوم سوگ کے موقع پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے خصوصی دعا کی جائے گی۔وزیر اعظم نے یونان میں 14 جون کو ہونے والے کشتی کے حادثے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کے لیے 4 رکنی اعلی سطح کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی ایک ہفتے میں رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی اور کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے امیگریشن ونگ نے کراچی سے ایک مبینہ انسانی اسمگلر کو گرفتار کرلیا جو لوگوں کو لیبیا اسمگل کرنے میں ملوث تھا جن میں سے رواں سال کے شروع میں بحری جہاز کے حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد بھی شامل تھے۔ایف آئی اے نے ایک بیان میں کہا کہ ملزم انٹرنیشنل پرواز سے آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے گرفتار کیا گیا، حکام نے نے مزید کہا کہ ملزم کئی مہینوں سے روپوش تھا، ملزم متعدد شہریوں کو غیر قانونی طریقے سے لیبیا بھجوانے میں ملوث تھا۔ایف آئی اے نے بتایا کہ اسے فلائٹ سے اتار کر تحویل میں لیا گیا۔بیان میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے خلاف ایف آئی اے اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل گجرات میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اور اسے گرفتاری کے بعد متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ رواں ہفتے کے اوائل میں یونان کے علاقے پیلوپونیس کے قریب تارکین وطن سے بھری کشتی الٹنے کی ’فوری تحقیقات‘ کرے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ خیال رہے کہ بدھ کو پیلوپونیس میں کشتی ڈوبنے سے کم از کم 78 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے، مرنے والوں میں پاکستانیوں کے شامل ہونے کا خدشہ ہے۔ دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ لوگوں کی تلاش جاری ہے، اب تک زندہ بچ جانے والوں کی تعداد 104 ہے، جس میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کمیٹی کے چئیرمین مقرر کیے گئے ہیں، جبکہ وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکریٹری (افریقہ) جاوید احمد عمرانی کو کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا ہے، اسی طرح آزاد جموں و کشمیر پونچھ ریجن کے ڈی آئی جی سردار ظہیر احمد اور وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری (ایف آئی اے) فیصل نصیر بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔بیان کے مطابق کمیٹی یونان میں کشتی ڈوبنے کے تمام حقائق جمع کرے گی اور انسانی اسمگلنگ کے پہلو کی تحقیق ہوگی اور ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے تعاون اور اشتراک کے عمل کی تجاویز دی جائیں گی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ فوری، درمیانی اور طویل المدتی قانون سازی کا جائزہ لیاجائے گا، ایسے واقعات کا سبب بننے والے افراد، کمپنیوں اور ایجنٹوں کو سخت ترین سزائیں دینے کے لیے قانون سازی ہوگی۔جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیر اعظم نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے انسانی اسمگلروں کی نشاندہی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ جیسے گھناؤنے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈاؤن اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کی ہدایت کی ہے،وزیراعظم نے دفتر خارجہ کو کشتی حادثے اور اس میں پاکستانیوں کی ممکنہ موجودگی کی اطلاعات پر فوری کارروائی کی ہدایت کی۔ حادثے کا شکار پاکستانی شہریوں کی تمام تفصیلات فوری مہیا کی جائیں، تمام پاکستانیوں کے لیے بہترین کاوشیں کی جائیں، سُستی اور نااہلی برداشت نہیں کروں گا۔ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کے لیے فوری طور پر ہیلپ ڈیسک قائم کی جائے، اور انہیں تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔انہوں نے یونان اور مصر میں پاکستانی سفرا کو بھی ہنگامی اقدامات کی سخت ہدایت کی، اس کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو اپنے اداروں کے ذریعے تفصیلات جمع کرنے اور تحقیقاتی رپورٹ دینے کی بھی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ پائے جانے پر ملوث ایجنٹوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔
ان کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعے میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کی معلومات و سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کر دیا۔
دوسری جانب چیف سیکریٹری آزاد جموں و کشمیر نے بھی پاکستانی سفارتخانے اور یونانی حکام سے رابطے اور جاں بحق و زخمی ہونے والوں کی معلومات کے لیے فوکل پرسن تعینات کر دیا۔
وزیراعظم نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت پوری قوم کی ہمدردیاں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔
انہوں نے یونان میں پاکستانی سفارتخانے کو واقعے میں ریسکیو کیے جانے والے 12 پاکستانیوں کی دیکھ بھال کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ ایک روز قبل ایف آئی اے نے ان لوگوں سے اپیل کی تھی جو اس واقعے میں ملوث ’مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے متعلق معلومات رکھتے ہیں‘ ایجنسی کو مطلع کریں اور ان کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔
انہوں نے یونان اور مصر میں پاکستانی سفرا کو بھی ہنگامی اقدامات کی سخت ہدایت کی، اس کے علاوہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو اپنے اداروں کے ذریعے تفصیلات جمع کرنے اور تحقیقاتی رپورٹ دینے کی بھی ہدایت کی۔
وزیراعظم نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ پائے جانے پر ملوث ایجنٹوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔
ان کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعے میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کی معلومات و سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کر دیا۔
دوسری جانب چیف سیکریٹری آزاد جموں و کشمیر نے بھی پاکستانی سفارتخانے اور یونانی حکام سے رابطے اور جاں بحق و زخمی ہونے والوں کی معلومات کے لیے فوکل پرسن تعینات کر دیا۔
وزیراعظم نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سمیت پوری قوم کی ہمدردیاں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔
وزیراعظم نے یونان میں پاکستانی سفارتخانے کو واقعے میں ریسکیو کیے جانے والے 12 پاکستانیوں کی دیکھ بھال کی ہدایت کی۔
اس کے علاوہ ایک روز قبل ایف آئی اے نے ان لوگوں سے اپیل کی تھی جو اس واقعے میں ملوث ’مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے متعلق معلومات رکھتے ہیں‘ ایجنسی کو مطلع کریں اور ان کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔ایک ٹوئٹ ایف آئی اے نے کہا تھا کہ ’کسی بھی شہری کے پاس یونان میں کشتی الٹنے کے خوفناک واقعے کے مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے متعلق معلومات ہیں، بشمول کسی ایسے شخص کے بارے میں معلومات جو ایک یا زیادہ کو بیرون ملک بھیجنے میں ملوث ہو سکتا ہے۔
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ مذکورہ واقعے کے متاثرین سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ایف آئی اے اسلام آباد (آئی سی ٹی، راولپنڈی ڈویژن، گجرات اور لاہور) کے درج ذیل افسران کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔ایف آئی اے نے شہریوں کو یقین دلایا کہ ’معلومات کا اشتراک کرنے والے شہریوں کے ناموں کو سختی سے خفیہ رکھا جائے گا‘۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے کہا تھا کہ مختلف عینی شاہدین کے مطابق کشتی پر 400 سے 750 افراد سوار تھے۔ دفتر خارجہ نے تصدیق کی تھی کہ لوگوں کی تلاش جاری ہے، اب تک زندہ بچ جانے والوں کی تعداد 104 ہے، جس میں 12 پاکستانی بھی شامل ہیں۔دریں اثنا برطانوی اخبار کی رپورٹ میں زندہ بچ جانے والوں کی لیک ہونے والی شہادتوں کا حوالہ دیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے نیچے والے ڈیک میں بھیجا گیا جبکہ دیگر قومیتوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ان کے گرنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکان تھا‘۔ایک فرد کی گواہی کے مطابق کشتی میں 400 پاکستانی سوار تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’زندہ بچ جانے والوں کے بیانات سے پتا چلتا ہے کہ خواتین اور بچوں کو مردوں کے ہجوم سے بھری کشتی میں محفوظ رکھنے کے لیے کشتی کے نچلے حصے میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ان میں سے کسی کے بچنے کی اطلاع نہیں ہے۔برطانوی اخبارنے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو بھی نیچے والے ڈیک میں رکھا گیا تھا، جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں نظر آتے تھے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تھے تو عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔رپورٹ میں مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 135 کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی نے یونان کے ساحل پر حالیہ کشتی حادثے میں 300 سے زائد پاکستانیوں کی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹ سیکریٹریٹ میڈیا ڈائرکٹوریٹ سے جاری بیان کے مطابق چیئرمین سینیٹ نے کہا ہے کہ غم کی اس گھڑی میں غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے ہیں اور ان کے غم میں برابر کے شریک ہے۔ انہوں نے حادثے میں جاں بحق افراد کے درجات بلندی کی دعا کی ہے۔ انہوں نے انسانی اسمگلنگ جیسے غیرقانونی عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس غیرقانونی عمل کی روک تھام پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی سمگلنگ کو روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا محمد آفریدی، سینیٹ میں قائد ایوان سینیٹر اسحٰق ڈار اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزاد وسیم نے بھی اس المناک واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔یونان کے ساحلی محافظوں نے کہا ہے کہ پیلوپونیس میں کشتی ڈوبنے سے کم از کم 79 تارکین وطن ہلاک ہو گئے اور خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد سیکڑوں تک تجاوز کرسکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق کوسٹ گارڈ نے بتایا کہ بحیرہ ایونی میں تیز ہواؤں کی وجہ سے بین الاقوامی پانیوں میں کشتی الٹنے کے بعد پیچیدہ آپریشن کے دوران تقریباً 100 افراد کو بچا لیا گیا۔ وزارت ہجرت نے کہا کہ کوسٹ گارڈ کے مطابق کشتی پر ’سیکڑوں‘ افراد ہو سکتے تھے، ہمیں خدشہ ہے کہ لاپتا افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہو گی’۔ خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں نوٹ کیا کہ ’ہمیں خدشہ ہے کہ مزید جانیں ضائع ہوئیں، ابتدائی اطلاعات کے مطابق کشتی میں 400 افراد سوار تھے، دیگر یونانی حکام نے بتایا کہ زندہ بچ جانے والوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کشتی پر 750 تک افراد سوار ہو سکتے ہیں‘۔ یونان کی سربراہ مملکت، صدر کیٹرینا ساکیلاروپولو نے فوری طور پر کالاماٹا کی بندرگاہ کا سفر کیا تاکہ ریسکیو اور رہائش کے معاملات پر سینئر حکام سے بات چیت کی جا سکے۔ یونان میں اس وقت 25 جون کو متوقع انتخابات تک عبوری حکومت جاری ہے۔ یونان میں تارکین وطن کا بدترین سانحہ جون 2016 میں پیش آیا جب 1993 کے ریکارڈ کے مطابق کم از کم 320 افراد ہلاک یا لاپتا ہوئے تھے۔ آئی او ایم نے رواں برس مشرقی بحیرہ روم میں لاپتا ہوئے 48 تارکین وطن کی فہرست جاری کی تھی، جو ایک سال پہلے 378 تھی۔ ریسکیو آپریشن میں بحریہ کے جہازوں کے ساتھ فوج کا ایک طیارہ اور ہیلی کاپٹر کے ساتھ ساتھ چھ دیگر کشتیاں بھی شامل تھیں جو اس علاقے میں تھیں۔ کوسٹ گارڈ نے کہا کہ ’پائیلوس کے قریب ایک وسیع ریسکیو آپریشن جاری ہے، ایک ماہی گیری کی کشتی الٹنے کے بعد جس میں بڑی تعداد میں تارکین وطن سوار تھے‘۔میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ 26 افراد کو بندرگاہ پر قائم ہسپتال لے جایا گیا ہے، جن میں سے چار کی حالت تشویشناک ہے جنہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایئرلفٹ کرنا پڑا۔ کوسٹ گارڈ نے کہا کہ یورپ کی فرنٹیکس ایجنسی کے ساتھ ایک نگرانی کرنے والے طیارے نے منگل کی سہ پہر کشتی کو دیکھا تھا لیکن مسافروں کی ’کسی قسم کی مدد سے انکار کر دیا تھا‘۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ جہاز میں کسی نے بھی لائف جیکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی، اور انہوں نے فوری طور پر اپنی قومیتوں کا انکشاف نہیں کیا۔ حکام نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ تارکین وطن لیبیا سے روانہ ہوئے تھے اور اٹلی کی طرف جا رہے تھے۔ وزارتِ نے کہا کہ اس نے اضافی عملہ کالاماٹا بھیج دیا ہے اور بچ جانے والوں کو ایتھنز کے قریب ایک مہاجر کیمپ میں منتقل کر دیا جائے گا۔