وزیرِ اعظم شہباز شریف کا بجٹ نوجوانوں کی ترقی قرار
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئندہ مالی سال پاکستان اور عوام کی آمدن بڑھانے کا سال ثابت ہو گا۔وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ نوجوان ملک کا مستقبل ہیں اور ان کا مستقبل سنوارنا ہمیشہ کی طرح میری اولین ترجیح ہے، آئی ٹی، زراعت اور صنعت میں کاروبار کے آغاز سے نوجوانوں کو پاکستان کی ترقی کا معمار بنانا ہے۔ ایک بیان میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ بجٹ 24-2023 نوجوانوں کی ترقی، کاروبار اور روزگار کا تاریخی بجٹ ہے، مایوسیوں کو مٹانا، ملک و قوم کی تعمیر، ترقی اور خوشحالی سے نیا اعتماد اور امید بحال کرنا ہو گی۔شہباز شریف نے کہا کہ نوجوانوں کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ، چھوٹے اور رعایتی قرض دے رہے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے بجٹ میں آئی ٹی کاروبار میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہے، 2 ہزار ارب روپے سے زائد کسان پیکج سے زراعت اور کسان کی بہتری کا سفر مزید تیز ہو گا۔ صنعت، زراعت، آئی ٹی و توانائی کے شعبوں میں تیزی سے ترقی اور معاشی استحکام کا بجٹ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بجٹ 24-2023 کے ذریعے زرعی شعبے کے لیے مراعات جاری رکھیں گے، ان اقدامات سے غذائی تحفظ حاصل ہو گا، نوجوانوں کو زرعی ترقی میں حصہ دار بنا رہے ہیں، کسانوں، نوجوانوں کو زرعی اور کاروباری قرضوں سے کسان، نوجوان اور پاکستان خوشحال ہوں گے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی خلاف ورزی کی، پُر امید ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گےوزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کے لوگ بہادر ہیں، ماضی میں بھی مشکلات کا سامنا کر چکے ہیں، ہم کمر کس لیں گے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تقاضے اور شرائط احسن انداز میں پوری کیں، ملک کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے ہیں، عالمی مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط پوری کر دیں، اب ٹھوس پیش رفت کی توقع ہے۔وزارت خزانہ کے حکام نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے آئندہ بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ آئی ایم ایف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس ہدف پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کوششیں ناکافی قرار دی ہیں اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اقدامات بھی ناکافی قرار دیے ہیں۔وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے اقدامات کا کہا ہے۔پاکستان میں انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی نمائندہ ایسٹر پریز کا کہنا ہے کہ بجٹ تجاویز میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پرو گرام کیلئے وسائل کو کم کیا گیا، جبکہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو قرض پروگرام کی شرائط کے منافی قرار دیدیا۔
ایسٹر پریز کا کہنا ہے کہ نئی ایمنسٹی ایک نقصان دہ نظیر پیدا کرتی ہے، ٹیکس اخراجات میں ایمنسٹی پروگرام کی شرائط حکمرانی کے ایجنڈے کے خلاف ہے۔ انہوں نے توانائی شعبے پر مالی دباؤ میں کمی کیلئے اقدامات پر زور دیا اور بجٹ کی منظوری سے پہلے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کی۔وزیراعظم نے کہا ہے کہ سیلاب سے متعلق ریلیف اور بحالی کےچیلنجوں کے باعث آئندہ بجٹ بنانا خاص طور پر مشکل کام تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی بجٹ کا اعلان ہونے کے بعد کہا ہے کہ عالمی سپلائی چین میں رکاوٹوں اور جیو اسٹریٹیجک تبدیلیوں سے پیدا چیلنجوں کے باعث بھی بجٹ بنانا مشکل رہا۔شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی کے پیدا کردہ سیاسی عدم استحکام نے معیشت کو نقصان پہنچایا، بجٹ معیشت کی طویل مدتی بیماریاں ٹھیک کرنے کے آغاز کی نمائندگی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت نے ان صحیح شعبوں کو ترجیح دی ہے جو اقتصادی ترقی تیز کر سکتے ہیں، ان شعبوں کو بھی ترجیح دی ہے جو سرمایہ کاری راغب کرنے اور معیشت کو خود کفیل بنا سکتے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مہنگائی کو مد نظر رکھ کر سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشنرز کو ریلیف دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی مد نظر رکھ کر کم از کم اجرت بڑھا کر 32 ہزار روپے کردی ہے، بغیر کسی نئے ٹیکس کے زیادہ متوازن بجٹ موجودہ رکاوٹوں کے اندرممکن نہیں تھا۔وزیراعظم نے کہا کہ ان تمام لوگوں کا معترف ہوں جو اس مشق کا حصہ رہے اور بجٹ سازی میں کردار ادا کیا، معیشت کو اصلاحات کی اشد ضرورت ہے جو مستحکم سیاسی ماحول میں کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ میثاق معیشت سیاسی جماعتوں کے لیے عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کا واحد راستہ دکھائی دیتا ہے۔حکومت آئندہ مالی سال کے لیے دفاع پر 18 کھرب 4 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، جو کہ گزشتہ مال سال کے دوران دفاع کے لیے مختص بجٹ سے تقریباً 13 فیصد زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد اور آئندہ مالی سال کے لیے مختص کُل اخراجات کا 12.5 فیصد بنتا ہے۔
گزشتہ سال دفاعی امور اور خدمات کے لیے 15 کھرب 70 روپے مختص کیے گئے تھے، تاہم بعد میں اسے 15 کھرب 90 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا تھا۔
تفصیلی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بَری فوج کے لیے کُل بجٹ میں سے 824 ارب 60 کروڑ روپے، پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب 50 کروڑ روپے اور پاک بحریہ کے لیے 188 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں، اسی طرح ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی پنشن بھی 26 فیصد اضافے سے 563 ارب روپے ہو گئی جو کہ گزشتہ مالی سال میں 446 ارب روپے تھی۔
تاہم فوج کی پنشن کو دفاعی خدمات کے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ دفاع سے متعلق دیگر خریداریوں اور اسٹریٹجک پروگراموں کو بجٹ (بشمول اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے بجٹ) میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔
دفاعی بجٹ کی تفصیلات کے مطابق دفاعی انتظامیہ کے لیے 5 ارب 40 کروڑ روپے، ملازمین سے متعلقہ اخراجات کے لیے 705 ارب روپے، انتظامی اخراجات کے لیے 442 ارب روپے، مادی اثاثوں کے لیے 461 ارب روپے اور سول ورکس کے لیے 195 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
دفاعی خدمات کے اس تخمینے میں فوجیوں کو وردی اور سویلین ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں اور الاؤنسز بھی شامل ہیں، انتظامی اخراجات میں ٹرانسپورٹ، پیٹرولیم، تیل اور لیوبریکینٹس، راشن، علاج، ٹریننگ وغیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کی درآمد اور متعلقہ خریداریاں، سول ورکس (موجودہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے فنڈز) شامل ہیں۔
حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرا م (پی ایس ڈی پی) 24-2023 کے تحت دفاعی ڈویژن کی جاری اسکیموں اور نئی اسکیموں کے لیے 3 ارب 40 کروڑ روپے بھی مختص کیے ہیں، اس میں سے حکومت نے ملکی حصے سے 3 ارب 30 کروڑ روپے اور غیر ملکی امداد کے حصے سے 50 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔
حکومت نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی کے تحت دفاعی پیداوار کے 2 جاری منصوبوں کے لیے 2 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی ہے، جاری منصوبوں کے تحت گوادر میں شپ یارڈ بنانے کے لیے پروجیکٹ مینجمنٹ سیل کے قیام کے لیے 10 کروڑ روپے اور ’کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس‘ کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے ایک ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔بجٹ کا مجموعی حجم 14 ہزار 460 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو 2963 ارب مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں صوبوں کو 5276 ارب روپے دیئےجائیں گے۔ دفاعی بجٹ 1804 ارب روپے ہوگا۔ سود اور قرضوں کی ادائیگی پر7303 ارب روپے خرچ ہوں گے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ
نان فائلر کے بینک سے رقم نکلوانے پر مزید ٹیکس عائد
بےنظیر پروگرام: 93 لاکھ خاندانوں کو پونے9 ہزار روپے فی سہ ماہی
بیرون ملک پاکستانیوں کی غیرمنقولہ جائیداد خریداری پر فائنل ٹیکس ختم
مستحق طلبہ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کیلئے10ارب روپے مختص
یوتھ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو قرض کیلئے 10ارب روپے
آئی ٹی برآمدات بڑھانےکیلئے انکم ٹیکس رعایت 30جون 2026 تک قائم رہےگی
کراچی میں صاف پانی، کےفور منصوبے کیلئے17 ارب 50 کروڑ روپے
اسپیکر قومی اسمبلی کی زیرصدارت ہونے والے بجٹ اجلاس میں وزیراعظم شہبازشریف کی موجودگی میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مالیاتی بل پیش کیا۔
وزیرخزانہ نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اورپی ٹی آئی حکومتوں کاتقابلی جائزہ پیش کروں گا ن لیگ کے گزشتہ دورمیں مہنگائی 4فیصد تھی، ن لیگ کےگزشتہ دور میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں 5 ویں نمبر پر تھی، ملک میں بجلی کی کمی پوری کرنے کیلئے نئے منصوبے مکمل کیےگئے، نوازشریف کے گزشتہ دور میں انفرااسٹرکچر اور موٹرویز کا جال بچھایا گیا، ن لیگ کےگزشتہ دورمیں روزگارکےمواقع پیداکیےگئے اورمعاشی خوشحالی تھی، آج ملک کےمعاشی حالات کی ذمہ دارپی ٹی آئی کی حکومت ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نےآئی ایم ایف معاہدےسےروگردانی کی اورملکی ساکھ کونقصان پہنچایا، گزشتہ حکومت نےنئی حکومت کیلئےبارودی سرنگیں بچھانےکاکام کیا، گزشتہ حکومت نےاپنےتمام معاملات کے الزامات نئی حکومت پرڈال دیئے گزشتہ حکومت نےحقاق کومسخ کیا، اتحادی جماعتوں کےبھرپور تعاون سے مشکل معاشی فیصلے کیے اللہ نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا اور سازشی عناصر کوبےنقاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کوبحال کرنےکیلئےاقدامات کیے ہم نےسیاست نہیں ریاست بچاؤ پالیسی کو اپنایا پی ٹی آئی کے دور میں ملک کی تاریخ کا ریکارڈ قرضہ لیاگیا موجودہ حکومت کے بروقت اقدامات کی وجہ سے تجارتی خسارےمیں77فیصد کمی آچکی ہے تجارتی خسارہ کم ہوکر26ارب ڈالررہ جائے گا۔ زرعی قرضوں کی حد 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب کی جارہی ہے۔ معیاری بیج کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جارہی ہے۔ 50ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے 30ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پودوں کی درآمدپربھی کسٹم ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ کمبائن ہارویسٹر کے فروغ کیلئے تمام ڈیوٹی ٹیکسز کو ختم کر رہے ہیں۔ چاول پیداوار کو بڑھانے کیلئے مشینری آلات پر ڈیوٹی ٹیکس ختم کر رہے ہیں، ایگروانڈسٹری کورعایتی قرضے کیلئے 5 ارب روپےمختص کیے گئے ہیں۔ 80کروڑٹرن اوور والے ایگربیسڈ یونٹس کو ٹیکس سے 5 سال کیلئے استثنیٰ ہوگا۔ درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کیلئے 6 ارب روپے رکھےجا رہے ہیں۔ اسکول کالج میں کھیلوں کے فروغ کیلئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے پروگرام کیلئے 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ کارباری خواتین کیلئےٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ ہوگی۔ آئی ٹی برآمدات بڑھانےکیلئے انکم ٹیکس0.25 فیصد کی رعایتی شرح ہو گی، آئی ٹی برآمدات بڑھانےکیلئےانکم ٹیکس رعایت 30جون2026 تک قائم رہےگی، آئی ٹی شعبےکو ایس ایم ای کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کیلئے 5ارب روپے مالیت کا وینچرکیپٹل فنڈ قائم کیا جائےگا۔ اسلام آباد کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلزٹیکس کی شرح 15 سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے، 50ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو پروفیشنل ٹریننگ دی جائےگی۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کےتحت نوجوانوں کوآسان شرائط پر قرضے فراہم کیےجائیں گے۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو قرض کیلئے 10ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کے تحت اسپیشلائزڈ ٹریننگ کیلئے 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کےتحت نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے، وزیراعظم یوتھ پروگرام کےتحت نوجوانوں کو قرض کیلئے10ارب روپے رکھےگئےہیں۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کیلئے 65 ارب روپے رکھےجا رہے ہیں، ایچ ای سی کے ترقیاتی اخراجات کیلئے 70 ارب روپے کی تجویز ہے، پاکستان انڈومنٹ فنڈ کیلئے بجٹ میں 5ارب روپے رکھےجا رہے ہیں، پاکستان انڈومنٹ فنڈ طلبہ کو میرٹ پر وظائف فراہم کرے گا۔ مستحق طلبہ نوجوانوں میں لیپ ٹاپ کی تقسیم کیلئے10ارب روپے مختص کیے گئے۔ اسکول کالج میں کھیلوں کےفروغ کیلئے5ارب روپےمختص کیےگئےہیں۔ گریڈ ایک سے 16سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ ہو گا۔ گریڈ 17سے22تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30فیصد اضافہ ہو گا۔ پنشن میں ساڑھے17فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12ہزار روپے ماہانہ کی جارہی ہے۔ اسلام آباد کی حدودمیں کم ازکم اجرت 30ہزار روپےکی جارہی ہے۔ سرکاری ملازمین کو اسٹیشن سے باہر سفر اور قیام کیلئے روزانہ کی سطح پر الاؤنس دیا جائے گا۔ ای اوبی آئی کی پنشن کو ساڑھے 8 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار روپےکیا جا رہا ہے۔ ترسیلات زربرآمدات کے90 فیصد برابر ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی غیرمنقولہ جائیداد خریداری پر فائنل ٹیکس ختم کر دیا گیا۔ غیرمنقولہ جائیداد خریداری پربیرون ملک پاکستانیوں سے 2 فیصد ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو ایئرپورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن سہولت ہو گی۔ ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ریمیٹنس کارڈ ہولڈرز کا درجہ دیا جائے گا۔ ریمیٹنس کارڈہولڈرز قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات کی اسکیم ہو گی۔ سولر پینل کی مینوفیکچرنگ کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سولر پینل کی بیٹریز کی تیاری کے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سولر پینل کی مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ سولر پینل کے انورٹرکےخام مال پربھی ڈیوٹی ختم کی جارہی ہے۔ ایس ایم ایزکے قرضوں کو 6 فیصد مارک اپ پر بھی ری فنانس کیا جاسکے گا۔ ایس ایم ایزکوبینک قرضوں کا 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرےگی۔ حکومت کا ایس ایم ای آسان فنانس اسکیم دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایس ایم ایز کیلئے ا لگ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔ برآمدی سیکٹر سے متعلق ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان قائم کی جائےگی۔ وزیراعظم کی سربراہی میں ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان کا سہ ماہی اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ تمام لسٹڈ کمپنیوں پر ٹیکس 1.25 سےکم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے۔ کنسٹرکشن انٹرپرائز کی کاروباری آمدن پر ٹیکس شرح پر 10 فیصد یا 50 لاکھ کی رعایت ہو گی۔ ذاتی تعمیرات کرانے والے کو 3 سال تک 10فیصد ٹیکس کریڈٹ یا 10 لاکھ کی رعایت ہوگی۔ کنسٹرکشن رعایت کا اطلاق یکم جولائی کے بعد شروع ہونے والے منصوبوں پر ہوگا۔بی آئی ایس پی کے تحت 450 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ 93 لاکھ خاندانوں کو پونے9 ہزار روپے فی سہ ماہی فراہم کیے جائیں گے۔ بےنظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ 83 لاکھ بچوں تک پھیلایا جائے گا۔ بےنظیر تعلیمی وظائف پروگرام کیلئے 55 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بےنظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ کیلئے 6 ارب روپے مختص اور 92 ہزار بچوں کو دی جائےگی۔ بےنظیر نشوونما پروگرام تمام اضلاع میں جاری رہےگا۔ بےنظیر نشوونما پروگرام کیلئے 32 ارب روپے مختص اور بچوں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔نان فائلر کےلئے بینک سے رقم نکلوانے پر مزید ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ نان فائلر بینک سے 50 ہزار روپے نکلوائے گا تو 0.6 فیصد ٹیکس لگے گا۔ امیر گھرانوں میں کام کرنے والےغیرملکی شہریوں کی آمدن پرٹیکس لگے گا۔ نان فائلر کیلئے ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈ سے بیرون ملک خریداری پر 10 فیصد ٹیکس ہو گا۔ کےفور منصوبے کیلئے17 ارب 50 کروڑ روپے فراہم کئے جائیں گے۔ کےفور منصوبے کیلئے مزید فنڈز کی ضرورت ہوگی تو بینک کنسورشیم سے فنڈ لیں گے۔