٩ مئی ;جی ایچ کیو حملے کے 8 ملزمان ملٹری کورٹس کے حوالےکالم..اندر کی بات…کالم نگار….اصغر علی مبارک
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) پر حملے میں نامزد 8 ملزمان کو وملٹری کورٹس کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے کہنا ہے 9 مئی کے واقعات پاکستان مخالف اور دہشت گرد ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں، یہ کوئی حب الوطنی نہیں، دہشت گردی اور پاکستان دشمنی ہے۔9 مئی کا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں بڑا دلخراش تھا، جس طرح دہشت گردوں نے زیارت میں قائد اعظم کے گھر پر حملہ کیا اسی طرح لاہور میں بھی ان کے گھر کو راکھ بنادیا گیا، یہ کوئی پاکستانی سوچ نہیں ہو سکتی، یہ کام کوئی پاکستانی نہیں کر سکتا بلکہ یہ دہشت گرد اور پاکستان دشمن کا کام ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو ریڈیو پاکستان کو جلایا گیا، جی ایچ کیو پر حملہ کیا گیا، یہ کوئی حب الوطنی نہیں، دہشت گردی اور پاکستان دشمنی ہے، 9 مئی کا دن ہمیشہ پاکستان کی تاریخ میں سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔شہباز شریف نے کہا 9 مئی کے واقعات پاکستان مخالف اور دہشت گرد ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔ قانون عمل میں آئے گا، ان کو گرفت میں لے گا اور قانون و آئین کے تحت ان کو سزا دی جائے گی تاکہ قیامت تک کوئی اس طرح کی جرأت نہ کر سکے۔ پنجاب میں جیل حکام نے 9 مئی کے فسادات کے بعد گرفتار کیے گئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تقریباً 3 ہزار رہنماؤں اور کارکنوں میں سے اب تک ایک ہزار 200 کو رہا کر دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق تاحال زیرحراست قیدیوں میں سے پنجاب کی جیلوں میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی صرف 7 خواتین قید ہیں، ان میں سابق صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور مشہور ڈریس ڈیزائنر اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ شامل ہیں۔ دہشت گردی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزامات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار پی ٹی آئی کی تمام 7 خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کی مختلف بیرکوں میں رکھا گیا ہے جہاں مجموعی طور پر 150 دیگر خواتین قیدی بھی قید ہیں۔عدالتی احکامات پر حکام کی جانب سے رہا کیے گئے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنماؤں کو ایم پی او کی دفعہ 3 کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں 8 نامزدملزمان کوملٹری کورٹس کےحوالےکرنےکی درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل ملک رفاقت علی کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ سماعت کے بعد عدالت نے نامزد8 ملزمان کوملٹری کورٹس کے حوالے کرنے کی استدعا منظور کرلی۔ملزمان علی حسن، لال شاہ، شہریار ذوالفقار، فرہاد خان پر تھانہ سول لائن میں مقدمہ درج ہے جبکہ ملزمان ادریس، عمر فاروق، راجہ احسان اور عبداللہ کے خلاف تھانہ آرے بازار میں مقدمہ درج ہے۔ آٹھوں ملزمان اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل جناح ہاؤس لاہور اور مردان و پشاور میں فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے ملزمان کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے ملٹری کورٹس کے حوالے کیا جا چکا ہے۔جی ایچ کیو گیٹ پر حملہ کرنے والے 20 ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل کرلی گئی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے پُرتشدد احتجاج میں دفاعی تنصیبات اور جی ایچ کیو گیٹ پر حملہ کیا گیا۔ جی ایچ کیو گیٹ پر حملہ کرنے والے 20 ملزمان کی شناخت پریڈ مکمل کرلی گئی ہے۔ اڈیالہ جیل میں ہونےو الی شناخت پریڈ کے دوران ملزمان کی قانونی شناخت کا عمل بھی مکمل کرلیا گیا ہے۔ شناخت پریڈ مکمل ہونے پر ملزمان کا ریمانڈ حاصل کرکے تفتیش کا آغاز کیا جائے گا۔ ملزمان سے جی ایچ کیو حملے میں ملوث ساتھیوں کے بارے میں معلومات بھی حاصل کی جائیں گی۔
9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے دوران جی ایچ کیو پر حملے اور توڑ پھوڑ کی تحقیقات جاری ہیں۔ تحقیقاتی اداروں نے پی ٹی آئی کے 6 مقامی رہنماؤں کی فون کالز کا ریکارڈ حاصل کرلیا ہے۔ 88 شرپسند پی ٹی آئی کے 6 مقامی رہنماؤں سے رابطے میں رہے،فون کالز ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما اور سابق ایم پی اے واثق قیوم عباسی نے 8 بار اور اجمل صابر راجہ نے 7 بار رابطہ کیا۔فون کالز ریکارڈ کے مطابق پی ٹی آئی رہنما طارق محمود مرتضیٰ نے 9 اور راجہ عثمان ٹائیگر نے 6 بار شرپسند عناصر سے رابطہ کیا، راجہ راشد حفیظ نے 2 بار اور عمر تنویر بٹ نے شرپسندعناصر سے 3 دفعہ رابطہ کیا۔جی ایچ کیو پر حملے کا مقدمہ 9 مئی کو تھانہ آر اے بازار میں درج کیا گیا ۔ پرتشدد مظاہروں میں شامل4 خواتین سمیت14 افراد کی شناخت کی گئی ہے، شناخت کیے گئے 9 افراد کا تعلق راولپنڈی، 3 کا اسلام آباد، ایک کا کراچی اور ایک کا چکوال سے ہے۔
پرتشدد مظاہروں میں شامل 300 سے زائد افراد کی شناخت کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے ساتھ ہی حکومتی اور دفاعی املاک کو نقصان پہنچانے والوں کی گرفتاریوں کا عمل تیز کر دیا گیا ہے۔ لاہور کی ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے ان کی خواتین کارکنان کے ساتھ جیل میں بدسلوکی سے متعلق پھیلائی جانے والی خبروں کو بے بنیاد قرار دے دیا اور کمیٹی نے کہا کہ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی ہدایت پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کا دورہ کرنے کے بعد ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود چوہدری اور ڈی سی لاہور رافعہ حیدر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خواتین سے بدسلوکی کی خبریں بے بنیاد قرار دے دیں۔ڈاکٹر انوش مسعود نے کہا کہ جو خبریں خواتین کے حوالے سے پھیلائی جارہی ہیں وہ سب افواہیں ہیں کیونکہ جیل میں خواتین سے ہماری ملاقات ہوئی اور ایک ایک کرکے ہر خاتون سے بات ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جیل میں کوئی مرد خواتین کے سیل میں داخل نہیں ہوسکتا۔
خواتین کو گھر سے اشیا منگوانے کی سہولت تک دی جارہی ہے، بدسلوکی تو دور کی بات ہے ان کے ساتھ بہت اچھی طرح پیش آرہے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کے دورے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ خدیجہ شاہ سے بھی ملاقات ہوئی ہے اور ہماری دوسری خواتین سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جیل میں موجود خواتین کو میڈیکل کی سہولت بھی دی جا رہی ہے، خواتین ماہر نفسیات بھی جیل میں موجود ہیں، کسی کو کوئی بھی طبی مسئلہ ہے تو علاج معالجے کی سہولت موجود ہے اور میڈیکل ایمرجنسی ہوئی تو اسپیشل علاج معالجہ فراہم کیا جائے گا۔ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی 10 خواتین کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔ پولیس کے مطابق لاہور سے گرفتار ہونے والی متعدد خواتین کو دوران تفتیش بے قصور ثابت ہونے پر رہا کیا جاچکا ہے۔ڈی سی لاہور رافعہ حیدر کا کہنا تھا کہ جیل میں ایک ایک خاتون سے ملاقات کی ہے، ہمارے پاس ہسپتال اور ڈاکٹر ہر طرح کی سہولت ہے، خاص ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینس سروس بھی فراہم کی جاسکتی ہے۔اس سے قبل عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث خواتین کے ساتھ دوران گرفتاری جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔بعد ازاں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا تھا کہ 9 مئی کو ملک میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد حراست میں لی گئیں خواتین کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جا رہا ہے۔ پولیس اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ اگر خواتین کو حراست میں لیا جا رہا ہے تو خواتین اہلکار موجود ہوں۔انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ پی ٹی آئی پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ خواتین کو جیلوں میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔محسن نقوی نے مزید کہا تھا کہ لاہور میں کورکمانڈر ہاؤس پر حملے میں ملوث تمام افراد کا احتساب کیا جائے گا چاہے جو کوئی بھی ہو۔رپورٹ کے مطابق پنجاب کی جیلوں میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والی صرف 7 خواتین قید ہیں، ان میں سابق صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور مشہور ڈریس ڈیزائنر اور سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی خدیجہ شاہ شامل ہیں۔ دہشت گردی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کے الزامات کے تحت درج مقدمات میں گرفتار پی ٹی آئی کی تمام 7 خواتین رہنماؤں اور کارکنوں کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کی مختلف بیرکوں میں رکھا گیا ہے جہاں مجموعی طور پر 150 دیگر خواتین قیدی بھی موجود ہیں۔پنجاب کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر نے کہا کہ ہمارے پاس پی ٹی آئی کی صرف 7 خواتین ہیں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور خدیجہ شاہ بھی شامل ہیں، پنجاب میں 43 جیلیں ہیں اور ان 7 خواتین کے سوا پی ٹی آئی کی کوئی خاتون رہنما یا کارکن صوبے کی کسی بھی جیل میں قید نہیں ہے، ان 7 قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل کے لیڈی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔انہوں نے صوبے بھر کی کئی جیلوں میں پی ٹی آئی کی سیکڑوں خواتین موجود ہونے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک یا مبینہ ریپ کی افواہیں بھی مسترد کردیں اور ان دعووں کو محض پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کے ذریعے محکمہ جیل خانہ جات کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔میاں فاروق نذیر نے دعویٰ کیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بیرکوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، جیل کے ایس او پیز کے مطابق رات کے وقت میرے سمیت کسی بھی مرد اہلکار کو لیڈی بیرک میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ لیڈی وارڈ میں متعدد بیرکیں اور 5 خصوصی سیل ہیں جہاں خواتین قیدیوں کی پرائیویسی یقینی بنانے کے لیے تینوں شفٹوں میں کوئی مرد اہلکار تعینات نہیں کیا جاتا۔ آئی جی جیل خانہ جات کا کہنا تھا کہ ہر شفٹ میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور 2 لیڈی ہیلتھ وزیٹر خواتین قیدیوں کے لیے موجود ہوتی ہیں، کوٹ لکھپت جیل میں کسی بھی خاتون قیدی کے ساتھ تشدد یا مبینہ ریپ کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی بدسلوکی کی گئی۔ پنجاب کے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیرکا کہنا ہے کہ ہمارے پاس پی ٹی آئی کی صرف 7 خواتین ہیں جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد اور خدیجہ شاہ شامل ہیں، پنجاب میں 43 جیلیں ہیں اور ان 7 خواتین کے سوا پی ٹی آئی کی کوئی خاتون رہنما یا کارکن صوبے کی کسی بھی جیل میں قید نہیں ہے، ان 7 قیدیوں کو کوٹ لکھپت جیل کے لیڈی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ انہوں نے صوبے بھر کی کئی جیلوں میں پی ٹی آئی کی سیکڑوں خواتین موجود ہونے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک یا مبینہ ریپ کی افواہوں کو بھی مسترد کردیا، انہوں نے ان دعووں کو محض پروپیگنڈا اور سوشل میڈیا کے ذریعے محکمہ جیل خانہ جات کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔میاں فاروق نذیر نے دعویٰ کیا کہ سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے بیرکوں کی نگرانی کی جا رہی ہے، جیل کے ایس او پیز کے مطابق رات کے وقت میرے سمیت کسی بھی مرد اہلکار کو لیڈی بیرک میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ لیڈی وارڈ میں متعدد بیرکیں اور 5 خصوصی سیل ہیں جہاں خواتین قیدیوں کی پرائیویسی کو یقینی بنانے کے لیے تینوں شفٹوں میں کوئی مرد اہلکار تعینات نہیں کیا جاتا۔آئی جی جیل خانہ جات کا کہنا تھا کہ ہر شفٹ میں ایک لیڈی ڈاکٹر اور 2 لیڈی ہیلتھ وزیٹر خواتین قیدیوں کے لیے موجود ہوتی ہیں، کوٹ لکھپت جیل میں کسی بھی خاتون قیدی کے ساتھ تشدد یا مبینہ ریپ کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی بدسلوکی کی گئی۔محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کے ایک اور سینئر اہلکار کا کہنا ہے کہ جیل حکام نے کوٹ لکھپت جیل میں خواتین قیدیوں کو خاطر خواہ سہولیات فراہم کی ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ گرم موسم کے پیش نظر جیل کے لیڈی وارڈ میں چھت کے پنکھوں کے علاوہ 16 ایئر کولر بھی لگائے گئے ہیں تاکہ مطلوبہ درجہ حرارت برقرار رکھا جا سکے۔مزید برآں حکام نے بجلی کی بندش کی صورت میں لیڈی وارڈ کو بجلی کی فراہمی برقرار رکھنے کے لیے متبادل انتظام کے طور پر جنریٹر بھی نصب کیا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملے کے الزام میں گرفتار پی ٹی آئی کی خواتین کو کلاس ’سی‘ کی قیدی قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ساتوں خواتین کو دہشت گردی اور ریاستی اداروں کی تنصیبات پر حملوں کے الزامات کا سامنا ہے، ان کو بیرکوں میں رکھا جارہا ہے اور سی کلاس کے قیدیوں کی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ان کو فراہم کردہ سہولیات میں تولیے، ٹوتھ پیسٹ، صابن، ایئر کولر، کھانا اور حفظان صحت کی کٹس وغیرہ شامل ہیں۔واضح رہے کہ 9 مئی کو سابق وزیراعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں ہنگامہ آرائی کے دوران جی ایچ کیو پر حملے سے متعلق پی ٹی آئی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی فرح آغا و دیگر خواتین رہنماؤں کی مبینہ آڈیو لیک سامنے آگئی ہے۔سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی خواتین رہنماؤں کی جی ایچ کیو حملے سے متعلق مبینہ آڈیو کال لیک وائرل ہو رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کی سابق رکن صوبائی اسمبلی فرح آغا کو مبینہ طور پر پی ٹی آئی کی دوسری خواتین سے باتیں کرتے سنا جاسکتا ہے، جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ جی ایچ کیو پہنچنا ہے، جس پر سبرینا کہتی ہیں کہ ٹھیک ہے۔فرح آغا مبینہ طور پر مزید کہتی ہیں کہ میم کنول نکلی ہوئی ہیں، میم کنول نے کہا ہے کہ جی ایچ کیو آنا ہے۔فرح آغا مبینہ طور پر پی ٹی آئی ویمن ونگ کی ڈپٹی جنرل سیکرٹری کو مخاطب کر کے کہتی ہیں کہ یہ جو بالکل ہی ادھر آتے ہیں، آخر میں لیاقت باغ والی جگہ ہے، وہاں اتنی بری شیلنگ ہو رہی ہے، صدر جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، انہوں نے سارے راستے بند کیے ہوئے ہیں، میں ایکسپریس وے بھی دیکھ آئی ہوں، اب مجھے بتاؤ کیا کرنا ہے، فیض آباد میں راشد حفیظ ہے، شفیق ہے اور سماویہ ہے۔قبل ازیں کنول شوزب کی 9 مئی کو راولپنڈی میں کارکنان کو اکسانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آچکی ہے، ویڈیو میں انہیں کہتے دیکھا گیا کہ ’اگر ہر چیز نارمل چلے گی تو گھر جاکر سوجاؤ، آزادی کو بھول جاؤ اور غلامی کی تیاری پکڑو‘۔ویڈیو میں پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے پی ٹی آئی کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی عدم موجودگی پر سوال اٹھایا گیا تو کنول شوذب نے کہا کہ ’لعنت بھیجو اُن پر، ہمارے لیے عمران خان کھڑا ہے نا‘۔واضح رہے کہ 9 مئی کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کارکنان کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، پُرتشدد احتجاج کیا گیا، سرکاری و نجی املاک اور فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے اور جلاؤ گھیراؤ بھی کیا گیا۔حکومت نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر پی ٹی آئی کے سیکڑوں کارکنان سمیت اعلیٰ قیادت کو حراست میں لے لیا تھا، شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری سمیت درجنوں رہنماؤں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ پی ٹی آئی کے کئی رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت پر رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کرلیا گیا جبکہ شیریں مزاری اور فیاض الحسن چوہان سمیت کئی رہنماؤں نے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔