کیا حال کر دیا ہے؟
گلی محلوں میں کچھ لوگ کمر پر سامان باندھے گھر گھر دروازے کھٹکھٹاتے ہیں، اول تو مہنگائی کی ماری عوام انکی موجودگی سے عاجز آ کر دروازہ کھولنے کی زحمت ہی نہیں کرتی اور اگر بالفرض کوئی خاتونِ خانہ دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ان لوگوں سے بھاؤ کرنے لگے تو ایسا دلچسپ مناظرہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ بیس ہزار کا سامان تین چار ہزار میں بیچ کر چلے جاتے ہیں، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پہلے اتنی بڑی رقم بتا کر پھر اتنی کم رقم پر کیوں آ جاتے ہیں، شاید سوچتے ہیں کہ کوئی بے وقوف پھنس گیا تو پھنس گیا ، نہ پھنسا تو نہ سہی۔۔۔ ہماری پولیس کے حالات بھی ایسے ہی ہو گئے ہیں، یاں یوں کہیں کہ پچھتر سالوں میں ایسے کر دئے گئے ہیں، ابھی چند مہینے پہلے ہمارے ایک عزیز جن کا تعلق مڈل کلاس فیملی سے ہے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے، پولیس والوں نے خوب ڈرایا دھمکایا کہ کیس چلے گا، عدالت میں پیشیاں ہوں گی، تاریخ پر تاریخ پڑے گی، وکیلوں کے خرچے ہوں گے، اور خواری الگ، آپ ہمیں پینتالیس ہزار دے دیں اور معاملہ رفع دفع کریں، وہ عام سے شہری اس مہنگائی کے عالم میں رقم سن کر پریشان ہو گئے کہ اتنی رقم کہاں سے لاؤں، پس انکار کر دیا کہ میں یہ رقم نہیں دے سکتا، پولیس نے کیس بنا کر جیل میں بند کر دینے کی دھمکی دی، تو مالی پریشانیوں سے خائف موصوف بھی تن گئے کہ ڈال دو جیل میں لیکن پیسے نہیں ہیں میرے پاس، جب ڈرا دھمکا کر بات نہ بنی تو پولیس آفیسر نے پیار سے کام لیا کہ آپ پڑھے لکھے، شریف آدمی ہیں گھر میں بیوی بچے پریشان ہوں گے آپ پیسے دیں اور جان چھڑائیں، اس بار تو وہ صاحب اڑ گئے کہ گھر جاتا ہوں تو بیوی تنگ کرتی ہے پیسے مانگتی ہے اچھا ہے بند کر دو، نہ گھر جاؤں گا اور نہ ہی بیوی پیسے مانگے گی، پولیس آفیسر تنگ آ کر کہتا ہے کہ چلیں آپ آرام سے سوچ بچار کر لیں ہم کل بات کریں گے، مگر وہ صاحب بھی ٹس سے مس نہ ہوئے اور چلے گئے، ایک دو روز بعد پولیس والے پھر آ گئے اور پیسوں کا تقاضا کرنے لگے، تو ان صاحب نے پھر کہہ دیا کہ میں اتنے پیسے نہیں دے سکتا، تھک کر پولیس آفیسر کی طرف سے یہ تجویز سامنے آئی کہ چلیں پینتالیس ہزار کی بجائے پینتیس ہزار دے دیں، ان صاحب نے پھر انکار کر دیا کہ یہ بھی زیادہ ہیں تو پولیس والے ترلے منتوں پر آ گئے کہ تھانے میں اتنے لوگ ہیں سب کو حصہ دینا ہوتا ہے، مگر بات نہ بن سکی، خیر اور کچھ دن گزرے اور معاملہ غالباً سات آٹھ ہزار پر طے پایا اور جان چھوٹی۔غور طلب بات یہ ہے کہ جو پینتالیس ہزار مانگا گیا تھا وہ بالکل ناجائز اور غیر قانونی تھا، اور پھر سات آٹھ ہزار کو بھی غنیمت جانا گیا لیکن کچھ نہ کچھ نکلوایا ضرور گیا، ہم سنتے رہتے ہیں کہ راہ چلتوں سے بھی بٹورتے رہتے ہیں، اور کچھ لوگ تو بھتے اور خرچے پانی کے نام پر بھی گھیرے میں آ جاتے ہیں۔ یوں تو یہ ایک فلاحی ادارہ ہے، جس کا کام عوام کی فلاح اور بھلائی ہے، ان کو تخفظ فراہم کرنا ہے، اور امن کی صورتِ حال کے لئے کوششیں کرنا ہے، پر حرکتیں انکی چور، ڈاکوؤں، دہشتگردوں اور بے روزگاروں والی ہیں، بے روزگار تو یہ بالکل بھی نہیں ہیں، تنخواہ ان کو عوام کے پیسے سے ملتی ہے، جو کہ سالانہ بڑھ بھی جاتی ہے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد عہدے کے مطابق مراعات بھی ملتی ہیں۔ تو بے روزگار تو یہ بالکل بھی نہیں ہیں، ہاں باقی یہ کیا ہیں؟ اور کیا کر رہے ہیں؟ انکی حرکتوں کی وجہ سے عام شہری ان سے کتراتا ہے، یہ کہنے کو تو مسیحا ہیں لیکن ان کے چہروں سے مسیحائی تو نہیں جھلکتی البتہ انکی چال ڈھال، اکڑ، توند، آنکھوں اور مونچھوں کو دیکھ کر لوگ خوف ذدہ ضرور ہو جاتے ہیں، لوگ مشکل اور مصیبت میں ان کو پکارنے کی بجائے صبر کے گھونٹ بھرنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ اللّٰہ کو گواہ بنا کر خلف لینے والے، کسطرح اللّٰہ کو بھول جاتے ہیں، اور جو روپ قوم نے پچھلے ایک سال سے ان کا دیکھا ہے، سوال اٹھتا ہے کہ عوام کے مسیحاؤں کا یہ حال کس نے کیا ہے؟ کس نے ان کی انسانیت ختم کر کے ان کو ریمورٹ سے چلنے والا روبوٹ بنا دیا ہے، کہ انھیں بے گناہ کا قتل کرتے، عورتوں پر ہاتھ ڈالتے، بے بس اور مجبور کا تماشا بناتے نہ یہ یاد آتا ہے کہ انکی بھی ایک روز پیشی ہونی ہے اللّٰہ کی عدالت میں، نہ ان کو اپنے گھر کی بہن ، بیٹیوں کا انجام یاد آتا ہے۔ نہ کسی بوڑھے کے بڑھاپے کا سہارا چھینتے اپنا آنے والا وقت یاد آتا ہے۔ آخر کس نے ان کو بے ضمیر، شیطان اور حیوان بنادیا ہے، اور جو کچھ پچھلے کچھ ہفتوں میں ہوا ہے، ان کو نہ جانے کتنے مظلوموں نے بد دعائیں دیں ہوں گی، آخر کس نے ان کو اتنا سفاک اور ظالم بنا دیا ہےکہ انھیں بد دعاؤں سے بھی ڈر نہیں لگتا، یہ کونسی جاہل ماؤں کی گود سے تربیت لے کر نکلے ہیں کہ ان کو صرف اپنی نوکری اور مراعات کی فکر ہے، لیکن اللّٰہ کی ناراضی کی نہیں، اور یہی حال باقی اداروں کا بھی ہے، یہ حال کر دیا ہے کہ عدالتوں میں کیس سالوں لٹکے رہتے ہیں، آج لوگوں کو جان و مال کا تحفظ نہیں ہے، نہ ہم اندرونی دشمن سے محفوظ ہیں اور نہ ہی بیرونی دشمن سے، عام شہریوں کے ساتھ کھلے عام پلاٹس اور سوسائٹیز کے نام پر فراڈ ہو رہا، راہ چلتوں کو لوٹ لیا جاتا ہے، اور لوگ تحفظ دینے والوں سے اتنا ڈرنے لگے ہیں کہ سوچتے ہیں کہ نہ ہی کچھ کہیں ، نہ ہی ان چکروں میں پڑیں۔
سوال پھر وہیں ہیں کہ آخر اداروں کا یہ حال کس نے کر دیا ہے؟سنا کرتے تھے کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، اور اس ماں نے اپنے بچوں جیسے اداروں کو اس طرح لاڈ سے پالا ہے کہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، اسکی غلطی پر کبھی اسے تھپڑ رسید نہیں کیا، اسکے جرم پر کبھی اسے سزا نہیں دی، اپنی سہولت کی خاطر اتنی بری تربیت کی ہے کہ آج یہ بچے جب بڑے ہو گئے ہیں تو معاشرے کے لئے باعثِ رحمت بننے کی بجائے، باعثِ زحمت اور باعثِ شرمندگی بن گئے ہیں، نہ ایسی ماؤں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، نہ ہی ایسی اولاد صدقہِ جاریہ ہوتی ہے، یہ دونوں ایک دوسرے کی بربادی کا سامان ہوتے ہیں، کیونکہ یاد رہے کہ ہر ماں کو ہر باپ کو اپنی اولاد کا حساب دینا ہے، اچھی مائیں ہی اچھی قوم بناتی ہیں، مگر اس ماں جیسی ریاست نے اپنے بچوں کو اتنا خراب کر دیا ہے کہ لوگ جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں دے رہے ہیں، اور یہ بھی یاد رہے کہ اگر دعائیں پہاڑ ہلا دیتی ہیں تو مظلوم کی بد دعائیں بھی عرش کا سینہ چیڑ دیتی ہیں، اللّٰہ ایسی ماؤں کو ہدایت دے اور اس قوم پر رحم فرمائے آمین۔