وزیراعظم شہباز شریف کی رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے نیا دور شروع
وزیراعظم شہباز شریف کی رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے ایک نیا دور شروع ہواہے,ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی عام انتخابات میں کامیابی کے بعد رجب طیب اردگان نے تیسری مرتبہ ترکیہ کے صدر کا حلف اٹھایا۔ رجب طیب اردگان نے 2028 تک صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں پہلی تقریب انقرہ میں ترکیہ گرینڈ نیشنل اسمبلی میں منعقد ہوئی جہاں انہیں صدارتی منصب کی اسناد پیش کی گئی۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان صدارتی الیکشن میں 54.47 فیصد ووٹ لے کر سب سے آگے رہے جبکہ اپوزیشن کے امیدوار کمال کلیک دار اوغلو کو 45.53 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔سپریم الیکشن کونسل کے چیئرمین احمت ینیر نے دارالحکومت انقرہ میں صحافیوں کو ووٹوں کی گنتی کے سرکاری نتائج سے آگاہ کیا تھا۔خیال رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی دعوت پر رجب طیب اردوان کے صدر منتخب ہونے کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ترک سرمایہ کاروں اور تاجروں سے ملاقاتیں کی اور انہیں پاکستان کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھانے کی دعوت دی۔وزیراعظم نے پاکستان میں سرمایہ کاری لانے اور پاکستانی عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے پر انادولو گروپ کی حوصلہ افزائی کی۔ صدر رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے وزیراعظم ترکی کے دو روزہ سرکاری دورے پر ہیں۔ملاقات میں وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور ترکیہ میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر یوسف جنید بھی موجود تھے۔ترکیہ کی اپوزیشن کے خواب اس وقت چکنا چور ہوگئے جب صدر رجب طیب اردوان نے اپنی دو دہائیوں سے جاری حکمرانی کو 2028 تک بڑھانے کے لیے تاریخی رن آف الیکشن میں باآسانی کامیابی حاصل کی۔ طیب اردوان نے 14 مئی کو پہلے راؤنڈ میں سیکولر حریف کمال کلیچدار اوغلو کو تقریباً 5 فیصد پوائنٹس سے شکست دے کر توقعات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم وہ واضح فتح حاصل کرنے سے جزوی طور پر پیچھے رہ گئے تھے جس کے سبب حتمی فیصلہ انتخابی رن آف الیکشن میں ہوا۔ انتخابی نتائج موصول ہونے کے بعد رجب طیب اردوان کے صدارتی محل کے قریب ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں لاؤڈ اسپیکر پر نغمے گائے جا رہے تھے اور ترکیہ کا بہت بڑا جھنڈا لہرا رہا تھا۔اے کے پی کے پرجوش ووٹرز رجب طیب اردوان کی تصاویر کے ساتھ ترکیہ کے جھنڈے اور بینرز لہراتے ہوئے عمارت کے باہر جمع ہو گئےتھےجب کہ پرجوش موٹر سوار حامیوں نے اپنی گاڑی کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیاتھا۔
جب واضح ہو گیا تھا کہ رجب طیب اردوان نے بطور صدر تیسرا مینڈیٹ حاصل کرلیا ہے تواردوان نے استنبول میں پرجوش خطاب کیا جب کہ اس دوران آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔تقریباً 9 بجے کے قریب 99 فیصد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کے ساتھ سرکاری نتائج نے ظاہر کیا تھاکہ رجب طیب اردوان نے اپنے حریف کے 48 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 52 فیصد عوام کی حمایت سے اپوزیشن کے خواب چکنا چور کردیےتھےوزیر اعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی دعوت پرانقرہ میں تقریب حلف برداری میں شرکت کی ,وزیر اعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر اور ان کی اہلیہ کو آموں کا تحفہ دیا،
دونوں کے درمیان دلچسپ گفتگو کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔وزیر اعظم اور ترک صدر اور ان کی اہلیہ کے درمیان خوشگوار انداز میں گفتگو ہوئی جس میں پاکستانی آموں کی بھی تعریف ہوئی۔وزیراعظم نے رجب طیب اردوان کو بتایا کہ پاکستان کے عوام ترکیہ کے عوام سے بھی زیادہ آپ کے انتخاب پر خوش ہیں۔شہباز شریف نے تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت پر صدر رجب طیب اردگان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی دعوت کا بہت شکریہ، آپ نے اپنی خوشیوں میں ہمیں شریک کیا۔وزیراعظم نےرجب طیب اردگان سے کہا کہ وہ ان کے لیے آموں کا تحفہ لائے ہیں، آدھے آم آپ کے لیے اور آدھے آپ کی اہلیہ کے لیے ہیں۔ وزیراعظم کی بات پر ترکیہ کے صدر اور ان کی اہلیہ بے ساختہ مسکرا دئیے اور شکریہ ادا کیا۔ رجب طیب اردگان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ انہیں علم ہے کہ پاکستان کے آم بہت لذیذ اور میٹھے ہوتے ہیں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے رجب طیب اردگان کے صدر بننے پر خصوصی بورڈ پر تہنیتی پیغام اور دستخط تحریر کیے۔شہباز شریف نے 28 مئی کو ترکیہ کے انتخابات میں صدر منتخب ہونے پر پاکستان کی حکومت اور عوام کی جانب سے رجب طیب اردوان کو مبارک باد دی تھی۔وزیراعظم شہبازشریف نے عوامی جمہوریہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان کو دوبارہ صدر منتخب ہونے کی تاریخی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات بلندی کی جانب گامزن رہیں گے، میں دونوں ممالک کے عوام کے مابین بہترین بھائی چارے پر مبنی تعلقات اور تزویراتی شراکت داری کو مزید وسعت دینے کے لئے ترک صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا شدت سے منتظر ہوں۔ترک صدر کے نام اپنے تہنیتی ٹوئٹ میں کیا، شہبازشریف نے کہا کہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان دنیا کی چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی سیاست عوامی خدمت پر مرکوز رہی ہے۔وزیراعظم نے کہا تھا کہ وہ دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے لئے ایک توانا ستون اور ناقابل تنسیخ حقوق کے لئے پرجوش آواز رہے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں ان کی صدارتی اور اے کے پی کی کامیابی مختلف پہلوئوں سے اہمیت کی حامل ہے جو ترک عوام کی طرف سے انکی ولولہ انگیز قیادت پر اعتماد اور بھروسے کی عکاسی کرتی ہے ۔ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان دو طرفہ تعلقات بلندی کی جانب گامزن رہیں گے، میں دونوں ممالک کے عوام کے مابین بہترین بھائی چارے کی مناسبت سے دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی شراکتداری کو مزید وسعت دینے کے لئے ترک صدر کے ساتھ مل کر کام کرنے کا شدت سے منتظر ہوں۔دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے مباکباد کے پیغام میں کہا کہ تاریخی فتح ترک قوم کے دور اندیش قیادت پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہے، ہم بھائی چارے کے اپنے منفرد سفر کو جاری رکھتے ہوئے ترکیہ کے لیے امن اور خوشحالی کی خواہش کرتے ہیں۔ترکیہ کی اپوزیشن کے خواب اس وقت چکنا چور ہوگئےتھے جب صدر رجب طیب اردگان نے اپنی دو دہائیوں سے جاری حکمرانی کو 2028 تک بڑھانے کے لیے تاریخی رن آف الیکشن میں باآسانی کامیابی حاصل کی۔ طیب اردوان نے 14 مئی کو پہلے راؤنڈ میں سیکولر حریف کمال کلیچدار اوغلو کو تقریباً 5 فیصد پوائنٹس سے شکست دے کر توقعات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم وہ واضح فتح حاصل کرنے سے جزوی طور پر پیچھے رہ گئے تھے جس کے سبب حتمی فیصلہ انتخابی رن آف الیکشن میں ہوا۔ انتخابی نتائج موصول ہونے کے بعد رجب طیب اردگان کے صدارتی محل کے قریب ان کے حامیوں کی بڑی تعداد موجود تھی جہاں لاؤڈ اسپیکر پر نغمے گائے جا رہے تھے اور ترکیہ کا بہت بڑا جھنڈا لہرا رہا تھا۔اے کے پی کے پرجوش ووٹرز رجب طیب اردگان کی تصاویر کے ساتھ ترکیہ کے جھنڈے اور بینرز لہراتے ہوئے عمارت کے باہر جمع ہو گئےتھےجب کہ پرجوش موٹر سوار حامیوں نے اپنی گاڑی کے ہارن بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
جب واضح ہو گیا تھا کہ رجب طیب اردگان نے بطور صدر تیسرا مینڈیٹ حاصل کرلیا ہے تورجب طیب اردگان نے استنبول میں پرجوش خطاب کیا جب کہ اس دوران آتش بازی کا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔تقریباً 9 بجے کے قریب 99 فیصد سے زیادہ ووٹوں کی گنتی کے ساتھ سرکاری نتائج نے ظاہر کیا تھاکہرجب طیب اردگان نے اپنے حریف کے 48 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں 52 فیصد عوام کی حمایت سے اپوزیشن کے خواب چکنا چور کردیئےتھے. یاد رہے کہ رجب طیب اردگان کی پیدائش 26 فروری 1954ء میں استنبول میں ہوئی۔ ان کے خاندان کا تعلق ترکی کے شمال مشرق میں واقع ریزہ نامی شہر سے تھا۔ ترک سیاست دان، استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکی کے سابق وزیر اعظم اور بارہویں منتخب صدر ہیں۔رجب طیب اردگان 28 اگست2014ء سے صدارت کے منصب پر فائز اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ ہیں جو ترک پارلیمان میں اکثریت رکھتی ہے۔ 28 مئی 2023ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان کو ایک دفعہ پھر ترکیہ کا صدر منتخب کر لیا گیاابتدائی تعلیم مدرسہ قاسم پاشا سے حاصل کی اور 1965ء میں وہاں سے فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد استنبول امام خطیب ہائی اسکول میں ماہرین سے تعلیم حاصل کی اور 1973ء میں میٹرک پاس کیا۔ اسی طرح دیگر اضافی مضامین کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایوب ہائی اسکول سے ڈپلومہ کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد مرمرہ یونیورسٹی کے کامرس و اکنامکس کے شعبہ میں داخلہ لیا اور 1981ء میں بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔رجب طیب اردگان اپنی ابتدئی جوانی سے مضبوط اجتماعی اور سیاسی زندگی کی جدوجہد کی وجہ سے مشہور تھے۔ اور انہوں نے 1969ء سے لیکر 1982ء تک یعنی چودہ سال کے درمیانی حصہ میں اپنی ٹیم کے ساتھ اجتماعی کام کے تجربہ کی روشنی میں سلیقہ عمل اور ڈسپلن سیکھا۔ چونکہ وہ ایک وسیع النظر اور روشن فکر جوان تھے اور پختہ یقین تھا کہ اپنے ملک و ملت کا بڑا فائدہ اس میں ہے کہ وہ سیاسی زندگی میں قدم رکھے، چنانچہ بڑے دھوم دھام اور متحرک صورت میں سیاسی زندگی میں داخل ہوئے۔ 1983ء میں رفاہ پارٹی کی تاسیس کے ساتھ بڑی طاقت کے ہمراہ میدان میں اترے،اور 1984ء میں استنبول کے ضلع بے اوغلو کی ایک تحصیل کے صدر بن گئے،پھر استنبول شہر صدر بن گئے، اور 1985ء میں رفاہ پارٹی کے مرکزی قرارداد کمیٹی کے رکن مقرر پائے۔ اسی عرصہ میں طیب اردوگان نے بڑے پیمانے پر کوششیں کیں ، خصوصاً جوانوں اور عورتوں کو سیاست کی طرف راغب کیا، اس دوران معاشرے میں سیاست کی ترویج اور قومی مفادات کے لیے اہم اقدامات اٹھائے اور یہی وجہ تھی کہ ان اقدامات کے نتیجے میں نئی تنظیم رفاہ پارٹی نے واضح برتری حاصل کی،اس پارٹی نے 1989ء میں ضلع بے اوغلو کے بلدیاتی انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کی، اور یہ ملکی سیاست میں قابل تقلید سمجھی جانے لگی۔27 مارچ 1994ء میں ہونے والے لوکل الیکشن میں رجب طیب اردوغان ملک کے سب سے بڑے شہر استنبول کے گورنر منتخب ہوئے۔ اس وقت استنبول کا شمار دنیا کے ان شہروں میں ہوتا تھا جہاں نہ امن قائم تھا اور نہ ہی ترقی تھی،،اس شہر میں جہاں پانی برقی کی قلت تھی ، وہیں کوڑا کرکٹ اور کچرے کا مسئلہ تھا ان جیسے بہت سارے بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کا ایسا حل نکالا کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے خوبصورت شہروں میں سے اسے ایک بنا دیا۔ اور1994ء سے 1998ء تک استنبول کے مئیر رہے۔1997ء میں رجب طیب نے سیرت شہر کے ایک جلسہ عام میں دوران خطاب ایک شعر ی مصرع پڑھا تھاجس کے الفاظ یہ تھے : گنبد ہماری جنگی ٹوپیاں ہیں ، مسجدیں ہماری فوجی چھاؤنیاں ہیں ، صالح مسلمان ہمارے سپاہی ہیں ،کوئی دنیاوی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی۔ اس جلسہ عام کے عام کے بعد محض اس شعری مصرع کی وجہ سے 12 دسمبر 1997ء کو جیل جانا پڑا، جس کے نتیجے میں انہیں ترکی کے بڑے شہر استنبول کے گورنری سے معزول کر دیا گیا۔اور 2001ء میں عبد اللہ گل کے اتحاد میں جسٹس اینڈ ڈیولیپمنٹ پارٹی بنائی۔ لیکن شہر سیرت کے جلسہ عام کے مقدمے کی وجہ سے رجب طیب اردگان نومبر 2002ء کے انتخابات میں امیدوار نہ بن سکے کیونکہ اس کی اہلیت کے بارے میں اسی مقدمے کی روشنی میں عدالتی حکم آیا تھا۔ اور پھر جب اس معاملے میں قانونی ترامیم ہوئیں تو انتخابی رکاوٹیں دور ہوئیں ۔ جس کے بعد 9 مارچ 2003ء کو جب رجب طیب اردگان نے اسی سیرت شہر سے پارلیمانی امیدوار کے لیے انتخابات لڑا توپچاسی فیصد85% ووٹ حاصل کیے جس کی بدو لت وہ بائیسویں الیکشن میں سیرت شہر سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے،اور 2003ء کے الیکشن میں وزیر اعظم بنائے گئے۔2014ء میں ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات ہوئے ، اس سے پہلے پارلیمانی افراد کو یہ حق تھا کہ وہ ملک کے کے صدر کا انتخاب کریں ،اور اس پہلے ترکی کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اگست 2014ء کو ترکی کی قوم نے اپنے ووٹوں سے پہلی مرتبہ رجب طیب اردگان کو جمہوریہ ترکی کا صدر منتخب کر لیا۔ اور 16اپریل 2017ء کو ترکی کے تاریخی ریفرنڈم انتخابات میں اکیاون اعشاریہ اکتالیس فیصد ٪51.41 ووٹ حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کی ایک اور بڑی کامیابی حاصل کی۔ 2008ء میں غزہ پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد رجب طیب اردگان کے زیرقیادت ترک حکومت نے اپنے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس پر سخت احتجاج کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں ترکرجب طیب اردگان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کیک جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر رجب طیب اردگان نے فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنادیا اور ترکی پہنچنے پر فرزندان ترکی نے اپنے ہیرو سرپرست کا نہایت شاندار استقبال کیا۔اس کے بعد 31 مئی بروز پیر 2010 ء کو محصور غزہ پٹی کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والے آزادی بیڑے پر اسرائیل کے حملے اور حملے میں 9 ترک شہریوں کی ہلاکت کے بعد پھر ایک باررجب طیب اردگان عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھر اور عوام سے لے کر حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے ترکی اور ترک رہنما رجب طیب اردگان کے فلسطینی مسئلے خاص طورپر غزہ پٹی کے حصار کے خاتمے کے لیے ٹھوس موقف کو سراہا اور متعدد عرب صحافیوں نے انہیں قائد منتظر قرار دیا۔ اور رجب طیب اردگان واحد وزیر اعظم تھے جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما کی پھانسی پر ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ 28 مئی کے رزلٹ کے بعد رجب طیب اردگان نے اکثریت سے یہ الیکشن جیت لیا۔ انتخابات میں آنے والے موجودہ صدر ایردوان نے 49.5٪ ووٹ حاصل کیے ، جو پچھلے انتخابات میں 52.59٪ سے کم ہے۔ انتخابات میں آنے والے موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے 49.52 فیصد ووٹ حاصل کیے جو گزشتہ انتخابات میں 52.59 فیصد تھے۔ دوسرے مرحلے میں بیرون ملک سےووٹوں کے ٹرن آؤٹ کی شرح 53.8٪ سے بڑھ کر 54.35٪ ہوگئی۔ دوسرے مرحلے میں 99.4 فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد سپریم الیکشن کونسل نے رجب طیب اردگان کو نئے صدر کے طورر پر منتخب قرار دیا۔خیال رہے کہ 28 مئی کو ترکیہ میں ہونے والے انتخابات میں ترکیہ کی اپوزیشن کے خواب اس وقت چکنا چور ہوگئے تھے جب صدررجب طیب اردگان نے اپنی دو دہائیوں سے جاری حکمرانی کو 2028 تک بڑھانے کے لیے تاریخی رن آف الیکشن میں باآسانی کامیابی حاصل کی تھی۔ رجب طیب اردگان کامیاب ہوگئے ہیں لیکن دشواریوں سے بھرپور راستہ ان کا منتظر ہے۔ ان میں سے سب سے اہم مسئلہ معیشت ہے۔ انتخابات سے قبل معیشت کو سہارا دینے کے لیے رجب طیب اردگان کی پارٹی کے زیرِ کنٹرول مرکزی بینک نے قرضے فراہم کیے تھے تاکہ معیشت میں نقد رقم کا اضافہ ہوسکے۔ اس معاشی اقدام کے اثرات میں زیادہ قدر والا ترک لیرا بھی شامل ہے۔ انتخابات سے ایک سال پہلے ترک لیرا کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے انتہائی کم ہوگئی تھی لیکن چند ماہ بعد اس کی قدر بہتر ہونے لگی۔ لیکن اب لیرا کی اصل قدر کو بحال کرنا ہوگا جو ترکیہ کی معیشت کو بدحالی کی جانب لے جائے گا۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر منعقد ہونے والے ترکیہ کے رن آف انتخابات کے نتائج میں سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی۔ رجب طیب اردگان نے باسفورس کے ایشیائی کنارے پر واقع استنبول کے مضافاتی علاقے اسکودار میں اپنی جیت کا اعلان کیا۔ اس علاقے میں زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ رہائش پذیر ہیں جہاں خواتین حجاب لیتی ہیں اور دن میں 5 بار اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جسے رجب طیب اردگان کے حامیوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ انتخابی مہم میں استعمال ہونے والی بس کی چھت پر چڑھ کررجب طیب اردگان نے اپنے حامیوں کو مبارکباد دی اور اپنے مخالفین پر طنز کیا جنہیں وہ کمالسٹ کہتے ہیں۔طیب اردوان نے 14 مئی کو پہلے راؤنڈ میں سیکولر حریف کمال کلیچدار اوغلو کو تقریباً 5 فیصد پوائنٹس سے شکست دے کر توقعات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، تاہم وہ واضح فتح حاصل کرنے سے جزوی طور پر پیچھے رہ گئے تھے جس کے سبب حتمی فیصلہ ترکیہ کے پہلے رن آف الیکشن میں ہوا۔ ان انتخابات میں مغرب بھی اردوان کی شکست کی خواہش کررہا تھا لیکن اردوان ترکیہ کے رہنما کے طور پر اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ رجب طیب اردگان کا نیا صدارتی دور پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور مختلف دنیا میں شروع ہورہا ہے۔ دو عالمی قوتیں یعنی امریکا اور چین ویسے کو ایک دوسرے کے آمنے سدامنے آچکے ہیں لیکن ان کے درمیان جاری تنازعے کی اصل نوعیت واضح نہیں ہے۔ تقسیم کا شکار اس دنیا میں ترکیہ جیسے ممالک بھی بڑی حد تک علاقائی اثرورسوخ رکھتے ہیں جو کچھ عرصہ قبل ایک یک قطبی دنیا میں ممکن نہیں تھا۔ یاد رہے کہ رجب طیب اردگان نے جو پہلا عوامی دفتر سنبھالا تھا وہ استنبول کے میئر کا عہدہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ استنبول کے رہائشیوں کو بہتر خدمات مہیا کرنے کے ساتھ ہی شہر کی بہتری کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے۔ رجب طیب اردگان کی فتح نہ صرف ترکیہ بلکہ خطے کی نئی حقیقتوں کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ سب سے پہلے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ترکیہ میں چند ماہ پہلے آنے والے تباہ کُن زلزلے جس میں ہزاروں افراد کے جانی نقصانات کے علاوہ بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا تھا، اس کے باجود رجب طیب اردگان 52 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ناقدین نےرجب طیب اردگان کی حکومت پر تعمیراتی ضابطوں پر عمل درآمد نہ کرنے اور قدرتی آفت کی ہنگامی صورتحال میں موثر ردِعمل نہ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے رجب طیب اردوان کی جیت کا تناسب بہت زیادہ نہیں رہا۔ وہ علاقے جو زلزلے سے شدید متاثر ہوئے تھے، وہاں سے بھی رجب طیب اردگان بڑی تعداد میں ووٹ لینے میں کامیاب رہے۔ شاید وہاں کے رہائشیوں کو اندازہ ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر آئے زلزلے ہر اس حکومت کو پریشان کردیں گے جو متاثرین کو امداد فراہم کرنے کی کوشش کریں گی۔ جو ووٹ رجب طیب اردگان کو پُرجوش انداز میں دیے جانے تھے، لوگوں نے وہی ووٹ ہچکچاہٹ میں ہی سہی لیکن انہیں کے حق میں ڈالے۔ دونوں صورتوں میں انہیں ووٹوں سے رجب طیب اردگان کی جیت ہوئی۔ یہ حقیقت ہے کہ انتخابات سے مہینوں بلکہ سالوں پہلے ہی ریاستی مشینری کو رجب طیب اردگان کی کامیابی کے امکانات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا جس میں قدرتی طور پر ریاستی میڈیا بھی شامل تھا۔ رجب طیب اردگان 1990ء کی دہائی میں استنبول کے میئر بنے تھے تب انہوں نے یہ کامیابی ریاستی میڈیا کی حمایت کے بغیر حاصل کی تھی۔