پی ٹی آئی ملزمان کو ریلیف کیوں ,کیسے, کہاں , ”مجرم بنے ہیرو” ذمہ دار کون؟
پی ٹی آئی کے مجرموں کو عدالت سے فائدہ کیوں, کیسے, کہاں سے مل رہا ہے؟ ذمہ دار کون؟……کیا مجرموں کو عدالتوں کے ذریعے این آر او مل رہا ہے, پی ٹی آئی کے 9 مئی کےمجرمان ” ہیرو” کیسے بن رہے ہیں؟ کیوں پورے پاکستان میں خاص طور پر پنجاب میں پی ٹی آئی دور حکومت میں جو پراسیکیوٹر مقرر کیے تھےکیوں نہیں ہٹایا گیا ؟پراسیکیوٹر جو اب بھی کام کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی مدد کر رہے ہیں اور کیا ایکشن لیا گیاہے؟ کیا جے آئی ٹی سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے مجرموں کو عدالت میں مجرم ثابت کرنے میں ناکام ہوچکےہیں ؟کیا جے آئی ٹی میں تفتیشی اداروں کےافسران نااہل ہیں,ذمہ دار کون ہے ؟ مجرم ہیروکیسے بن رہے ہیں؟ پولیس /استغاثہ ملزمان کے خلاف مقدمات کی تفتیش میں مکمل طور پر ناکام کیوں ہے ؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو پچھلے چند روز سے سوشل میڈیا پر پوچھے جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وکلا بھی یہ سوال کرتے نظر آتے ہیں .’قانون کے مطابق جب آپ کسی کو حراست میں لیتے ہیں تو پولیس اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ وہ ملزم کو 24 گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرے تاکہ مقدمے کی کارروائی/ تفتیش شروع ہوسکے بدقسمتی سے مجسٹریٹ/ٹرائل کورٹس نے مجرموں کو بری کر رہی ہیں۔۔ کارروائی/ تفتیش /تحقیقات مکمل نہ ہونےتک بری کرنا انتہائی بری مثال ہےاس وقت پاکستان میں قانون اور آئین کی سخت خلاف ورزی ہو رہی ہےوزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ9 مئی کے گرفتار ملزمان سے قانون کے مطابق نمٹا جائے گا اور وہ یہ یقینی بنائیں گے کہ انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔ سیاق و سباق کو درست کرنا چاہتا ہوں، نو مئی کو اس کی پارٹی نے جو کچھ کیا وہ ریاست پاکستان پر شرمناک حملہ تھا، کوئی بھی ملک اپنی ساکھ تباہ کرنے کی کوشش کو برداشت نہیں کر سکتا۔چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی احتجاج کے حق کو دبانے کا الزام گمراہ کن ہے۔ ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ 9 مئی کے بعد کی صورتِ حال پر سابق وزیرِ اعظم کے بیانات کا مقصد بیرون ملک میں موجود رائے سازوں کو گمراہ کرنا ہے۔کہا جاتا تھا کہ ”عدالتوں کا کوئی دل نہیں ہوتا ”اور قانون ہمیشہ اندھا ہوتا ہے لیکن آج کل ہر چیز اور اصول بدل گئے ہیں, پی ٹی آئی کےمجرمان ملک، ریاست، حساس اداروں کے املاک، عمارتوں، مساجد، ہسپتالوں اور اسکولوں پر حملہ آور ہوئے ۔ 9 مئی کے واقعات اچانک پیدا ہونے والے ردعمل کا نتیجہ نہیں ، بلکہ یہ ایک منصوبہ بندی کے تحت ظاہر کیا گیا ردعمل تھا جو ملوث افراد اور رہنماؤں کی آڈیوز، ویڈیوز اور سوشل میڈیا پر کی گئیں ان کی پوسٹس سے ثابت ہوتا ہے۔ گرفتاری کے بعد ملک کے اندر دہشت گردی اور ملک دشمنی کا ماحول بنایا گیا، چند سو جتھوں کے ساتھ مل کر سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت ان جگہوں پر ان جتھوں کو بھیج دیا گیا اور جس وقت گرفتاری کی خبر آئی اس وقت ان کو لانچ کیا گیا اور اس کی منصوبہ بندی سب نے دیکھی ہے۔تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد پر یہ الزام تھا کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور پر حملے میں ان کا اہم کردار تھا۔ جس کے باعث ان پر مختلف نوعیت کے تین مقدمات درج کیے گئے تھے۔ جن میں لوگوں کو اشتعال دلانے، توڑ پھوڑ کرنے کے علاوہ دیگر دفعات شامل ہیں۔لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کو جناح ہاؤس حملہ کیس سے بری کر دیا تھا۔
پولیس نے ڈاکٹر یاسمین راشد کو جناح ہاؤس حملہ کیس میں عدالت میں پیش کیا تھا اور جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔عدالت نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے جسمانی ریمانڈ کیلئے پولیس کی استدعا مسترد کردی اور انہیں کیس سے بری کر دیا۔انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انورکا کہنا ہے کہ ڈاکٹر یاسمین راشد اور حماد اظہر سمیت کئی افراد کی فون کالز کا ڈیٹا موجود ہے۔ ٹارگٹ پہلے سے سلیکٹڈ تھے، جو ہوا منصوبہ بندی سے ہوا، حماد اظہر، یاسمین راشد، مراد راس اور دیگر کی کالز کا ریکارڈ موجود ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان، جی ایچ کیو، ریڈیو پاکستان، دیگر تنصیبات پر ایک ہی وقت میں حملے کیے گئے، 9 مئی کو شہدا کی یادگاروں کی بےحرمتی کی گئی۔9 مئی کے واقعات اچانک پیش نہیں آئے، باقاعدہ سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت سب کچھ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف پروپیگنڈا ہوا، تمام شواہد عدالت میں پیش کریں گے۔ڈاکٹر عثمان انور نے ڈاکٹر یاسمین راشد کی رہائی کا فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ یاسمین راشد اور حماد اظہر سمیت کئی افراد کی فون کالز موجود ہیں۔ایک ایک فون کال کا ڈیٹا موجود ہے، شرپسندوں کو شناخت کے بعد گرفتار کیا گیا ہے، تمام ثبوت عدالت میں پیش کریں گے۔آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کے 88 کالرز ہیں جو اپنی قیادت کے ساتھ منسلک ہیں، ان کی کالز موجود ہیں جو عدالت میں پیش کیے جانے کے قابل ثبوت ہیں جنہیں ہم عدالت میں پیش کر رہے ہیں، یہ جی ایچ کیو کا کیس ہے، ایک جیسی ٹائمنگ ہے، ایک جیسے ریاستی ادارے ان کے اہداف ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اداروں کے خلاف ایک لمبے طرز عمل کے ذریعے نفرت کو ابھارا گیا، ان چیزوں کے تمام شواہد موجود ہیں جو میڈیا کو دکھائے جائیں گے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز انسٹاگرام، ٹوئٹر، فیس بک پر کیا کیا کہا گیا۔ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے افراد کی 215 کالز ہیں، 8 مارچ کو زمان پارک کے باہر جو ہنگامے کیے گئے، وہی لوگ 9 مئی کو جناح ہاؤس میں ہونے والے ہنگامے میں بھی ملوث ہیںان کا کہنا تھا کہ یہ بدمست ہاتھی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں اور پھر ڈیلیٹ کرتے ہیں، ہم پر الزام لگایا گیا کہ جس نے مور چوری کیا، اُسے تشدد کرکے ماردیا گیا، وہ شخص تو زندہ ہے، ہم نے اُس کی ویڈیو پیش کی۔یاد رہے کہ 9 مئی کو پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد ہی ملک کے مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں توڑ پھوڑ، سرکاری و عسکری املاک سمیت کئی اہم عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ان مظاہروں کے دوران اور بعد میں تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں پر مختلف نوعیت کے مقدمات کا اندراج ہوا اور ساتھ ہی ایک طرف تحریک انصاف کی قیادت اور ورکرز کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں شروع ہو گئیں تو دوسری جانب اکثر رہنما روپوش ہو گئے۔دوسری جانب تحریک انصاف کی وہ مرکزی قیادت جو اگرچہ خود تو مظاہروں میں شریک نہیں تھی انھیں بھی نقضِ امن یعنی ایم پی او کے قانون کے تحت گرفتار کر لیا گیاتھا اس وقت زیادہ تر لوگوں کو ایم پی او کے تحت پکڑا گیا ہے اور یہ قانون پاکستان بننے سے بھی پہلے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔‘اس وقت تحریک انصاف کے ایک درجن سے زائد رہنما گرفتار ہیں جبکہ ان کو عدالت کی جانب سے ریلیف ملنے کے بعد رہائی بھی ملی ہے فواد چوہدری اور اسد قیصر کو بھی ایم پی او کے تحت ہی پکڑا گیا تھا تاہم عدالت سے ریلف ملنے کے بعد انھیں رہائی مل چکی ہے اور اب تک انھیں کسی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہیں کیا گیا۔شاہ محمود قریشی، اسد عمر، شیریں مزاری، سیف اللہ نیازی، عالیہ حمزہ، مسرت چیمہ، ملیکہ بخاری، فلک ناز چترالی، فیاض الحسن چوہان، قاسم سوری، علی زیدی، علی محمد خان، شہریار آفریدی، فردوس شمیم نقوی سمیت دیگر رہنماؤں کو ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ایم پی او کے تحت ان افراد کو حراست میں لیا جاتا ہے یا نظر بند کیا جاتا ہےتحریک انصاف کے کئی رہنماوں ایسے بھی ہیں جن کے خاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ تاہم ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی ہے۔ ان میں مراد سعید، حماد اظہر، فرخ حبیب، علی امین گنڈا پور، اسد زمان، شوکت بسرا، زبیر نیازی، میاں اسلم اقبال سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔ مختلف شہروں میں درج ہونے والے کئی مقدمات اسے بھی ہیں جن میں پوری پوری لیڈرشپ کو نامزد کیا گیا ہے۔ تاہم پولیس کے مطابق وفاقی دارالحکومت سے گرفتار ہونے والے زیادہ تر رہنماؤں کے خلاف ایم پی او کے تحت کارروائی کی گئی اگر ایف آئی آرز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کئی رہنماؤں پر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کے مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق فوج یہ ارادہ بھی رکھتی ہے کہ کور کمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو اور دیگر عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والوں سمیت ان کے سہولت کاروں کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے درج ہوں۔تاہم وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے 17 مئی کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرفتار افراد میں سے آرمی ایکٹ کے تحت کس کے خلاف مقدمات چلیں گے اس کا فیصلہ قانون اور شواہد کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کسی بے گناہ شخص کو مقدمات میں نہیں الجھائے گی۔’.17 مئی کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ گرفتار افراد میں سے آرمی ایکٹ کے تحت کس کے خلاف مقدمات چلیں گے اس کا فیصلہ قانون اور شواہد کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کسی بے گناہ شخص کو مقدمات میں نہیں الجھائے گی۔’حکومت نے پورے پاکستان سے نو مئی کے واقعات کے تناظر میں گرفتار افراد کا ڈیٹا، ان پر عائد الزامات اور اُن کے خلاف دستیاب شواہد کو عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے اس حوالے سے ’پراپیگنڈے‘ کو بے نقاب کیا جا سکے۔ گرفتاریاں قانون کے مطابق کی جا رہی ہیں اورعمران خان کے دور حکومت کے برعکس موجودہ حکومت فاشزم پر یقین نہیں رکھتی اور نہ ہی کسی کو بے بنیاد مقدمے میں پھنسانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسے لوگ جو نو مئی واقعات کی منصوبہ بندی میں شامل تھے ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی رعائت نہیں برتی جائے گی۔ ہائی کورٹس سے ملنے والے ریلیف پر پی ٹی آئی کے ورکرز جشن منا رہے ہیں۔اسے انصاف کی فتح اور قانون اور آئین کی با لا دستی قرار دے ہیں ۔ پی ٹی آئی اورعمران خان کو ملنے والا ریلیف میڈیا میں موضوع بحث بن گیا ہے۔دوسری جانب دوسری سیا سی جماعتوں کے کارکن تنقید اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس ریلیف سے ملک بھر کی پولیس کی حوصلہ شکنی ہو ئی ہے اس سے پی ٹی آئی کے جارحیت اور عسکریت پسند کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں جارحانہ طرز عمل کا کلچر فروغ پائے گا ۔ جمہوری اقدار کو ضعف پہنچے گا۔دوسری طرف جمیعت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہنا تھا کہ 9 مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ کے جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر ہم عوامی عدالت میں گئے، ہم نے اسلام آباد میں ریلی نکالی، بڑی تعداد میں لوگ آئے اور عدلیہ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا، ہم عدلیہ کے خیرخواہ ہیں، بدخواہ نہیں ہیں لیکن جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ ملک کے کسی ادارے کی کارکردگی پر عوام کو اعتراض ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے دیتے ہیں جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ پی ٹی آئی نے 9 مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا، یہ ایک نئی صورتحال سے جس کو ماضی کے کسی واقعے سے نہیں جوڑا جاسکتا، آرمی ایکٹ باقاعدہ قانون کا حصہ ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی کی جاسکتی ہے۔اس کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنااللہ خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے منظم منصوبہ بندی کے تحت 9 مئی کو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے سرکشی اور بغاوت کی، ریاست کے خلاف سرکشی اور بغاوت کرنیوالوں کو کسی صورت معافی نہیں ملے گی اورنہ انہیں سیاست کرنے کا حق ہوگا۔
انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ہر حال میں ہوں گے لیکن فتنہ ملک کی سیاست سے مائنس ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے دفاعی تنصیبات پر حملے کیے، جناح ہاؤس اور کور کمانڈر کی رہائشگاہ میں داخل ہوکر لوٹ مار کی، توڑ پھوڑ کے بعد عمارت کو آگ لگائی، حساس اداروں و دفاعی تنصیبات کو نشانہ بنایا، جلاؤ گھیراؤ کیا، بلوائیوں کی قیادت کی، شہدا کے مجسموں کی بے حرمتی کی، انہیں توڑا پھوڑا، ان پر جوتے اور ڈنڈے برسائے، انڈیا اور مودی کو راضی کیا اور ان کی آڈیوز ویڈیوز و جیو فینسنگ سمیت دیگر ثبوت موجود ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ وہ شر پسند چاہے زمین کی ساتویں تہہ میں چھپ جائیں، ضمانتیں کروالیں یا کورٹ سے ریلیف لے لیں، ریاست کے خلاف بغاوت اور سرکشی کرنیوالے ان دہشت گردوں اور شرپسندوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جا ئے گا، نہ انہیں کوئی معافی ملے گی تاہم جن لوگوں کی صرف معمولی خطا ہے اور وہ بلوؤں، جلاؤ گھیراؤ میں ملوث نہیں، انہیں معاف کرنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ ہم پریس کانفرنسز کرکے آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں سمیت ان لوگوں کو قانون کے پیچھے چھپنے نہیں دیں گے، ریاست کے خلاف سرکشی کرنیوالوں کو ریاست میں سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
جو لوگ اپنے آپ کو ان واقعات سے الگ کریں گے اور ان کا جرم صرف زبانی کلامی ہے ان کو معافی مل سکتی ہے لیکن جن کی ویڈیوز یا آڈیوز ہیں وہ ناک سے لکیریں بھی نکالیں گے تو ان کو معافی نہیں ملے گی، فتنے کو ملکی سیاست سے مائنس کریں گے، اس نے جو بویا اس کو وہ فصل کاٹنی پڑے گی۔ہم سب کچھ معاف کر دیتے ہیں لیکن انہوں نے ریاست کے خلاف بغاوت کی ہے سرکشی کی ہے جو قابل معافی نہیں،کوئی بھی لیڈرہو یا کارکن جس نے آرمی تنصیبات اورجی ایچ کیو پر حملہ کیا یا شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی ہے انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔
رانا ثنااللہ خان کا کہنا تھا کہ تمام ثبوت موجود ہیں اس لئے اب یہ جو چاہے صفائیاں دیں یا تاویلیں گھڑیں حکومت کا مصمم ارادہ ہے کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنیوالوں سے کوئی نرمی نہیں کی جا ئے گی تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی حرکت اور سرکشی و بغاوت کرنے کی جرات نہ ہوسکے۔انڈین جنرل اپنے فوجیوں سے کہہ رہا ہے کہ ہم نے زیادہ فوج بھیج کر چند نوجوانوں کو شہید کیا ہے کیونکہ انہوں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کیا مگر کرنل شیر خان کے مجسمے اور اس کی یادگار کے ساتھ جو سلوک انہوں نے کیا اس سے مودی کو راضی کیاگیا لہٰذا یہ ضمانتیں کروائیں عدالتیں انکو ریلیف دیں لیکن ہم انکو کسی قیمت پر معاف نہیں کریں گے۔