مالی مشکلات کے باوجود اتحادی حکومت کا بجٹ میں عوام کو بےپناہ ریلیف دینے کا اعلان
“” …….. وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری بلڈ اپ میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔ اس سے پہلےاسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے بجٹ پیش کرنا شروع کیا۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھاکہ بجٹ پیش کرنے کا اعزاز حاصل کرنے پر خدا کا شکر گزار ہوں، مالی سال 24-2023 کے بجٹ کے اعداد و شمار پیش کرنے سے پہلے 2017 میں نواز شریف کی حکومت اور 2022 میں پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کے بجٹ کا تقابلی جائزہ پیش کروں ۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 17-2016 میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 6.1 فیصد تک پہنچ چکی تھی، مہنگائی 4 فیصد تھی، غذائی اشیا کی مہنگائی صرف 2 فیصد تھی، پالیسی ریٹ ساڑھے 5 فیصد، اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔ پاکستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن تھی اور پاکستان 2020 تک جی-20 ممالک میں شامل ہونے والا تھا، پاکستانی کرنسی مستحکم اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر تھے، بجلی کے نئے منصوبوں سے 12-16 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ سے نجات مل چکی تھی، انفرااسٹرکچر، روزگار کے مواقع اور آسان قرضوں جیسے عوام دوست منصوبوں کی تکمیل کی گئی تھی۔ دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جاچکا تھا، ملک میں امن و امان اور سیاسی استحکام تھا، ان حالات میں آناً فاناً سازشوں کے جال بچھا دیے گئے، اگست 2018 میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی ناکام معاشی کارکردگی کے سبب پاکستان 24ویں بڑی معیشت کے درجے سے گر کر 47 ویں نمبر پر آگیا۔ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاونٹ خسارہ 17.5 ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گیا، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جوکہ جون 2022 تک 130 ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چینلجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے ’ایف اے او‘ کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ماملک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک جنرل الیکشنز کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کی بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چنیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے،معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جوکہ ایک مناسب ہدف ہے۔
اتحادی حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب حجم کا بجٹ پیش کیا ہے ، بجٹ میں مالی مشکلات کے باوجودعوام کوبے پناہ ریلیف دینے کا اعلان کیا گیا ہے, اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہرممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے مہنگائی میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی گروتھ کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادی رکھتی ہے۔صحافیوں و فنکاروں کیلئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اقلیتوں، اسپورٹس پرسنز اور طالب علموں کی فلاح کے لیے فنڈز اس کے علاوہ ہیں۔ پنشن کے مستقبل کے اخراجات کی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے پنشن فنڈ کا قیام کیا جائے گا۔جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ ، سرکاری ملازمین کی کم سے کم پنشن 10 ہزار سے بڑھا کر 12 ہزار، وفاقی حدود میں کم سے کم اجرت 32 ہزار روپے.ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیوٹیوٹ (ای او بی آئی) کے ذریعے پنشن حاصل کرنے والے پنشنرز کی کم سے کم پنشن کو 8500 روپے سے بڑھا کر 10ہزار روپے. ، قومی بچت کے شہداء اکاؤنٹ میں ڈپازٹ کی حد 50لاکھ روپے سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے , بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے بجٹ کو 360 ارب روپے سے بڑھا کر 400ارب ، مقروض افراد کی بیواؤں کے 10لاکھ روپے کے قرضے حکومت ادا کرے گی, ترسیلات زر کےذریعے غیرمنقولہ جائیداد خریدنے پر 2 فیصد ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے، ریمٹنس کارڈ کی کیٹگری میں ایک نئے ڈائمنڈ کارڈ کا اجراء ، سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد ترسیلات زر بھیجنے والوں کو ڈائمنڈ کارڈ جاری کیا جائے گا۔بجٹ تجاویز میں کہا گیا ہے کہ قانونی طریقے سے زرمبادلہ کو فروغ کے لیے مندرجہ ذیل مراعات دی جائیں گی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی زر مبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں اور ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ زرمبادلہ کارڈز کی کیٹگری میں ایک نئے ’’ڈائمنڈ کارڈ‘‘ کا اجرا کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50 ہزار ڈالر سے زائد زرمبادلہ بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ اس کیٹگری کے لیے مراعات میں”ایک غیر ممنوعہ بور اسلحے کا لائسنس””گریٹس پاسپورٹ ,پاکستانی سفارتخانوں اور قونصل خانوں تک ترجیحی رسائی,
پاکستانی ائیر پورٹس پر فاسٹ ٹریک امیگریشن کی سہولت,
کارڈزوالوں کو قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسٹیٹ بینک کے ذریعے اسکیم دی جائیں گی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم صوبائی ذمہ داری ہے لیکن وفاق اس کی ترویج میں اپنا بھر پور حصہ ڈالتا ہے، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے موجودہ اخراجات کی مد میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے لیے پاکستان انڈومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے جس کے لیے بجٹ میں 5 ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈز میرٹ کی بنیاد پر ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا، اس فنڈ کے قیام کا مقصد ہے کہ کوئی بھی ہونہار طالبعلم وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہو۔ لیپ ٹاپ اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی۔ کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہیں بجٹ میں اسکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ ان درآمدات کی قیمت میں اضافہ افراط زر کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس قیمت میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور شمستی توانائی کو فروغ دینے کے لیے پختہ ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں۔ سولر پینلز ، انورٹرز اور بیٹری کے خام مال پر استثنیٰ دیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کیلئے K4 گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کیلئے بھی رقم مختص کی ہے۔ K4 گریٹر واٹر سپلائی اسکیم کیلئے 17 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ بجلی اور ڈیزل کے بل کسان کے سب سے بڑے اخراجات میں شامل ہیں لہٰذا اگلے مالی سال میں 50,000 زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہے ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔چاول کی پیداوار بڑھانے کے لیے ڈیوٹی و ٹیکسز سے استثنیٰ کی تجویز ہے۔ آئندہ مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں فری لانسرز کیلئے ٹیکس سہولتوں کا اعلان کردیا۔وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ آئی ٹی اور آئی ٹی خدمات معیشت کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے شعبے ہیں اور ان کا برآمدات میں نمایاں حصہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسرز کے اعتبار سے دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، ان کو در پیش مسائل کا حل اور عمومی طور پر اس شعبے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے اور یہ سہولت 30 جون 2026 تک جاری رکھی جائے گی، فری لانسرز کو ماہانہ سیلز ٹیکس گوشوارے جمع کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا لہٰذا کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ انکم ٹیکس ریٹرن کا اجرا کیا جارہا ہے، آئی ٹی خدمات فراہم کرنے والوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ وئیر اور ہارڈ وئیر بغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے، ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالرز سالانہ مقرر کی گئی ہے۔آئی ٹی خدمات اور ایکسپورٹرز کے لیے آٹومیٹڈ ایگزیمشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کو یقینی بنایا جائے گا اور IT شعبہ کو ایس ایم ایز کا درجہ دیا جارہا ہے جس سے اس شعبے کو انکم ٹیکس ریٹس کا فائدہ ملے گا۔اسلام آباد کی حدود میں آئی ٹی سروسز پر سیلز ٹیکس کی موجودہ شرح کو 15 فیصد سے کم کر کے 5 فیصد کی جارہی ہے، اس کے علاوہ IT کے شعبے میں قرضہ جات کی فراہمی کو ترغیب کے لیے بینکوں کو اس شعبے میں 20 فیصد کے رعایتی ٹیکس کا استفادہ حاصل ہوگا، اگلے مالی سال میں 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس کو فنی تربیت دی جائے گی۔ملکی دفاع کے لیے 18 کھرب 4 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، گزشتہ مالی سال دفاعی بجٹ 15 کھرب 23 ارب روپے تھا جس میں اس سال اضافہ کیا گیا ہے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کیلئے 7 کھرب 14 ارب روپے مہیا کیے جائیں گے۔ پنشن کی مد میں 7 کھرب 61 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بجلی، گیس اور دیگر شعبہ جات کے لیے 10 کھرب 74 ارب روپےکی رقم بطور سبسڈی رکھی گئی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع، بے نظیر پروگرام، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، ریلویز اور دیگر محکموں کیلئے 14 کھرب 64 ارب روپے کی گرانٹ مختص کی گئی ہے۔ اگلے سال پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے 9 کھرب 50 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے ذریعے 2 کھرب روپے کی اضافی رقم کے بعد مجموعی ترقیاتی بجٹ 11 کھرب 50 ارب روپے کی تاریخی بلند ترین سطح پر ہوگا۔بجٹ دستاویز کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کا ٹیکس وصولی کا ہدف 92 کھرب روپے مقرر کیا گیا ہے جس میں سے براہ راست ٹیکس وصولی کا حجم 37 کھرب 59 ارب روپے ہوگا جبکہ بلواسطہ ٹیکسز کا حجم 54 کھرب 41 ارب روپے ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر ٹیکس شدہ آمدنی 29 کھرب 63 ارب روپے ہوگی۔اگلے سال ایف بی آر محاصل کا تخمینہ 92 کھرب روپے ہے جس میں صوبوں کا حصہ 52 کھرب 76 ارب روپے روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس محصولات 29 کھرب 63 ارب روپے ہوں گے۔ وفاقی حکومت کی کل آمدن68 کھرب 87 ارب روپے ہوگی۔