اسلام آباد (اردو ٹائمز) شہباز شریف کی’ڈی 8‘ مصرسربراہی اجلاس میں شرکت
(اصغر علی مبارک)
پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح موسمیاتی تبدیلی سے شدید متاثر ہوا ہے اور اسے ماضی قریب میں دو بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس کی بحالی کا سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
D-8 ترقی پزیر مسلم ممالک کا ایک اتحاد ہے جو اقتصادی ترقی کے لیے متحد ہوئے ہیں۔ 1997ء میں اپنے قیام کے وقت یہ ممالک مشترکہ طور پر دنیا کی کل آبادی کا 13.5 فیصد تھے۔ اس کے اراکین میں انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش، پاکستان، ترکی، مصر، ملائیشیا اور نائجیریا شامل ہیں۔ترکیہ، بنگلہ دیش، مصر، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا اور نائجیریا پر مشتمل 11 ویں ڈی8 کانفرنس کا موضوع ’انوسٹنگ اِن یوتھ اینڈ اسپورٹنگ ایس ایم ایز : شیپنگ ٹوماروز اِکونومی‘ رکھا گیا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف 18 سے 19دسمبر تک قاہرہ میں منعقد ہونے والے ترقی پذیر آٹھ ممالک کے 11ویں سربراہی اجلاس میں پاکستانی وفد کی قیادت کرنے کے لیے مصر کے سرکاری دورے پر قاہرہ پہنچ گئے۔ عرب جمہوریہ مصر کے وزیر برائے پبلک بزنس سیکٹر محمد شیمیی اور قاہرہ میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے نے ہوائی اڈے پر وزیراعظم کا استقبال کیا۔ تنظیم کا مقصد رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو بڑھانا ہے تاکہ اقتصادی ترقی کو فروغ دیا جا سکے اور زراعت، تجارت، نقل و حمل، صنعت، توانائی اور سیاحت میں بہتری لانے اور تعاون بڑھانے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے معیار زندگی کو بہتر کیا جائے۔ 11ویں ڈی ایٹ (D-8 ) سمٹ کا موضوع “نوجوانوں میں سرمایہ کاری اور اسمال میڈیم اینٹر پرائز کو فروغ دینا : کل کی معیشت کی تشکیل ” ہے۔ سربراہی اجلاس میں وزیراعظم ایک مضبوط اور جامع معیشت کی تشکیل کے لیے نوجوانوں اور اسمال اینڈ میڈیم اینٹر پرائز میں سرمایہ کاری کی اہمیت پر گفتگو کریں گے۔ وزیر اعظم مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر غور و خوض کے حوالے سے غزہ اور لبنان میں انسانی بحران اور تعمیر نو کے چیلنجز پر D-8 کے خصوصی سربراہی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق ڈی 8 اقتصادی تعاون کی تنظیم ہے، اس کے ممبر ممالک میں پاکستان، مصر، بنگلہ دیش، ملائیشیا، نائجیریا، انڈونیشیا، ایران اور ترکیہ شامل ہیں۔وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ وزیراعظم محمد شہباز شریف قاہرہ میں’آئندہ کل کی معیشت کے لیے نوجوانوں، چھوٹے و درمیانے طبقےکے کاروبار میں سرمایہ کاری’ کے موضوع پر منعقدہ ڈی 8 کے 11 ویں سربراہی اجلاس میں شرکت کریں گے۔مزید رپورٹ کیا کہ شہباز شریف سربراہی اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے روزگار کی فراہمی، جدت کے فروغ اور مقامی کاروبار کی ترویج کی بنیادوں پر مضبوط اور شراکت داری پر مبنی معیشت کے لیے نوجوانوں، چھوٹے و درمیانے طبقے کے کاروبار (ایس ایم ایز) میں سرمایہ کاری کی اہمیت کو اجاگر کریں گے۔
اعلامیے کے مطابق وزیراعظم ترقی پذیر ممالک کی تنظیم ڈی 8 کے وضع کردہ بنیادی اصولوں پر تعاون و عملدرآمد کے حوالے سے پاکستان کے مضبوط عزم کا اظہار کریں گے۔وزیراعظم کانفرنس میں شریک ممالک کے مابین باہمی طور پر مفید ترقی کے لیے شراکت داریوں کے ساتھ ساتھ زراعت، غذائی تحفظ اور سیاحت میں تعاون کی اہمیت پر زور دیں گے۔اس کے علاوہ شہباز شریف نوجوانوں کو با اختیار بنانے اور ان کی معاشی ترقی کیلئے حکومت پاکستان کے اقدامات پر بھی روشنی ڈالیں گے، وزیر اعظم اسرائیلی جارحیت اور وحشیانہ بربریت کے نتیجے مشرق وسطی کی صورتحال، انسانی بحران اور غزہ و لبنان میں تعمیر نو و بحالی کے مسائل پر منعقدہ ڈی 8 کے خصوصی اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔وزیر اعظم فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے اصولی مؤقف سے آگاہی دیتے ہوئے مشرق وسطی میں امن کے قیام پر زور دیں گے، شہباز شریف اس موقع پر سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے آئے مختلف ممالک کے سربراہاں سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی کریں گے۔ نائب وزیر اعظم و وزیرِ خارجہ محمد اسحٰق ڈار، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ اور معاون خصوصی طارق فاطمی وزیراعظم کے ہمراہ کانفرنس میں شرکت کریںگے۔ترجمان دفتر خارجہ کا اعلامیے میں کہنا تھا کہ وزیر اعظم ڈی-8 کے نظریات کے لیے پاکستان کے مضبوط عزم کا اظہار بھی کریں گے، اس کے علاوہ باہمی فائدے اور خوشحالی کے لیے شراکت داری کو فروغ دینے کی اہمیت اور زراعت، خوراک کی حفاظت اور سیاحت میں تعاون کے فروغ پر بھی زور دیں گے۔ شہباز شریف کی جانب سے غزہ اور لبنان میں انسانی بحران اور تعمیر نو کے چیلنجز پر ڈی-8 کے خصوصی اجلاس میں بھی شرکت متوقع ہے، جس میں مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔
اعلامیے میں مزید بتایا گیا ہے کہ وہ خطے کی صورتحال پر پاکستان کے مؤقف کو اجاگر کریں گے اور امن کا مطالبہ کریں گے۔ترقی پذیر 8 ممالک کی اقتصادی تعاون تنظیم (D-8) کے سیکرٹری جنرل اشیاکا عبدالقادر امام نے کہا کہ D-8 مستقبل قریب میں پھیل سکتا ہے۔D-8 کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ 1997 میں جب D-8 کا قیام عمل میں آیا تو اس کا بنیادی مقصد 8 ترقی پذیر ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور تجارت کو بڑھانا تھا اور اب بھی اس ہدفکو حاصل کرنے کے لیے کام جاری ہے۔ تنظیم کو اب مزید وسعت دی جاسکتی ہے اور ضابطے اس کی اجازت دیتے ہیں اور D-8 مستقبل قریب میں مزید ممالک شامل ہو سکتے ہیں۔ تنظیم کے 8 ارکان ہیں اور اس میں توسیع کی گنجائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کچھ دلچسپی رکھنے والے ممالک سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں اور ہم قریبی ممالک سے درخواستوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ امام نے نشاندہی کی کہ آذربائیجان کی درخواست کا جائزہ اس دائرہ کار میں لیا گیا ہے۔ 1997 میں سابق وزیراعظم مرحوم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین ایربکان کی قیادت میں قائم اس تنظیم کے قیام کا مقصد رکن ممالک کی فلاح و بہبود اور امن میں اضافہ تھا اور یہ تنظیم گزشتہ 26 سالوں سے مضبوطی سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے جو تقریباً 1.2 بلین کی آبادی اور عالمی تجارت کا 14 فیصد حصہ۔ D-8 ممالک ترکی، بنگلہ دیش، مصر، انڈونیشیا، ایران، ملائیشیا، نائیجیریا اور پاکستان پر مشتمل ہیں۔پاکستان کی چیئرمین شپ کے دوران
2012ءمیں اسلام آباد میں منعقد ہونے والی 8ویں سربراہ کانفرنس میں ڈی ایٹ چارٹر اور گلوبل وژن کی منظوری سمیت ڈی ایٹ تنظیم کی کامیابیوں کو اجاگر کیا۔ پاکستان کی چیئرمین شپ کے دوران ڈی ایٹ کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ حاصل ہوا اور پاکستان نے 2012ءمیں ڈی ایٹ کی چیئرمین شپ سنبھالی۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کو موسمیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے 2030 تک 6.8 کھرب ڈالر درکار ہوں گے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کے فریم ورک پر عمل کرنا ہو گا، ترقی پذیر ممالک کو این ڈی سیز پر اپنے عوام کے لیے خدمات دینا ہوں گی۔‘ رقی پذیر ممالک کو 2030 تک این ڈی سیز کے نصف پر عملدرآمد کے لیے 6.8 کھرب ڈالر درکار ہوں گے، ڈونرز ممالک کو اپنے ترقیاتی امداد کے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔2022 میں پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی حصہ تباہ کن سیلاب سے متاثر ہوا جس کے بعد اس کے تمام ترقیاتی اور کلائمیٹ فنڈ بنیادی ریلیف اور انسانی کاوشوں کے لیے خرچ کرنے پڑے، ترقی یافتہ ملکوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے آگے آنا ہو گاموسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے فنانسنگ کے نام پر قرض کی فراہمی کی بجائے غیر قرضہ جاتی حل پر توجہ مرکوز کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘ وزیراعظم نے تجویز دی کہ یو این ایف سی سی سی، آئی ڈی سیز کے ہر 15 روز بعد جائزے کے لیے کمیٹی تشکیل دے۔