وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کے دورہ آذربائیجان میں تمام شعبوں میں تعاون پراتفاق
.پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان شمسی توانائی، دفاع، تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے پراتفاق کرلیا گیا ہے،آذربائیجان پاکستان سے جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے بات چیت کر رہا ہے۔پاکستان اور آذربائیجان کے مابین تعلقات مذہبی اور ثقافتی شعبوں میں بھی فروغ پاتے ہیں۔ باکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں پاکستانی – اردو زبان کی ایک خاص شاخ موجود ہے۔دونوں ممالک نے تجارت اور معیشت کے میدان میں تعاون اور ریاستی سطح پر مشترکہ کمیشن کے قیام سے متعلق ایک پروٹوکول پر دستخط کیے۔مذکورہ کمیشن کی میٹنگیں ہر 2 سال بعد دونوں ممالک کے دار الحکومت شہروں میں ہوتی ہیں۔پاکستان اور آذربائیجان نے باہمی تجارت اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف دو روزہ سرکاری دورے پر آذربائیجان پہنچے،وزیرِ اعظم کا وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد آذربائیجان کا یہ پہلا دورہ ہے، وہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کی دعوت پر آذربائیجان پہنچے ہیں۔وزیراعظم کا باکو میں ذگولبا صدارتی محل میں آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے پرتپاک استقبال کیا, اس موقع پر وزیراعظم کو گارڈ آف آنر پیش کیاگیا وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف کوآذربائیجان کے صدارتی محل میں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ ۔ وزیراعظم کےاس دورے کا مقصد توانائی، بینکاری، مالیاتی خدمات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینا ہے۔ باکو ہوائی اڈے پر وزیراعظم کا استقبال آذربائیجان کے پہلے نائب وزیراعظم یعقوب ایوبوف، نائب وزیر خارجہ النور مامادوف، پاکستان میں آذربائیجان کے سفیر خضر فرہادوف اور آذربائیجان میں پاکستان کے سفیر بلال حئی نے کیا۔ وزیرِ اعظم باکو میں آذربائیجان کے قومی قائد حیدر علیوف کے مزار پر گئے اور آذربائیجان کی یادگارِ شہدا کا دورہ بھی کیا، بعد ازاں وزیرِ اعظم کی صدر الہام علیوف کے ساتھ ملاقات ہوئی, وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر تجارت سید نوید قمر، وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی وزیراعظم کے وفد کا حصہ ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیاں تجارت کے فروغ اور توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے وزیرِ اعظم سے آذربائیجان کے وزرا کے وفد کی ملاقات بھی ہوئی۔
وزیراعظم نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ دورہ ہماری حکومت کی دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے اور پائیدار شراکت قائم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ترجیحی تجارتی معاہدے کو جلد حتمی شکل دینے کے اور توانائی، بینکاری، مالیاتی خدمات اور آئی ٹی کے شعبوں میں تعاون کی نئی راہیں کھولنے کے لیے آذربائیجان کی قیادت کے ساتھ اہم بات چیت ہوئی۔وزیراعظم نے کہا کہ بہترین دوطرفہ سیاسی تعلقات کو تجارت اور سرمایہ کاری کے ٹھوس تعلقات میں تبدیل کرنا ہمارا بنیادی ہدف ہے، ہماری توانائی کے تحفظ کی پالیسی میں وسطی ایشیا مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور ہم پاکستان کو توانائی کے لیے محفوظ بنانے کے لیے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔باکو میں آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہم آپ کے عظیم ملک آئے ہیں اس وقت سے ہمیں خوشگوار سرپرائزز مل رہے ہیں، میرے بھائی نواز شریف نے کہا تھا کہ جب آپ باکو جائیں گے تو آپ کو بہترین شہر دیکھ کر بہت خوشی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ کی آذربائیجان کے لوگوں کے لیے بہترین خدمت کی وجہ سے آپ کے عظیم والد کی روح پُرسکون ہوگی، میں دوران سفر چیزوں کو مشاہدہ کر رہا تھا، یقین کریں کہ میں آپ کے وژن، محنت اور آپ کی لیڈرشپ سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ درخواستیں کرنی ہیں، آپ کے شہر کتنے صاف ستھرے ہیں، آپ کی سولڈ ویسٹ منیجمنٹ، اگرچہ لاہور میں بھی ہمارے پاس بہترین پروگرام ہے لیکن یہاں آنا بہت اچھا لگا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ محترم صدر، آج ہماری آپ کے ساتھ بہترین مذاکرات ہوئے، میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان متعدد دو طرفہ اور کثیر الجہتی معاملات پر مکمل اتفاق رائے تھا، پاکستان اور آذربائیجان دو دوست ممالک ہیں، ہمارے تعلقات باہمی اعتماد اور خلوص مقصد اور باہمی احترام سے جڑے ہیں۔ شہباز شریف نے کہا کہ گوادر کے ذریعے قریبی ممالک کے ساتھ تجارت کے وسیع مواقع موجود ہیں، پاکستان میں شمسی توانائی کو فروغ دینے اور دوطرفہ تجارت کے حجم میں اضافے کے خواہاں ہیں،
ہم آذربائیجان کو پاکستانی چاول کی برآمد میں اضافہ چاہتے ہیں ۔روس یوکرین تنازع کی وجہ سے عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنا ہو گا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ آذربائیجان کا دورہ کرکے بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ وہ صدر آذربائیجان کے وژن سے بہت متاثر ہیں، آذربائیجان سے تعلقات کے فروغ کو اہم سمجھتے ہیں، آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں، وزیراعظم نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے عوام سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے بھارتی ظلم کا شکار ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے تنازعہ پر آذربائیجان کی طرف سے ہمیشہ پاکستان کے مؤقف کی تائید کو سراہا۔ آذربائیجان کی ایئر لائن اسلام آباد کیلئے پروازیں شروع کر رہی ہے، آذربائیجان کو چاول کی برآمد میں اضافہ چاہتے ہیں، امید ہے پاکستانی باسمتی چاول باکو میں بھی دستیاب ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آذربائیجان کے صدر الہام علیوف اور میزبانوں سے روسی زبان میں گپ شپ سے خوشگوار سرپرائز دیا۔آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے مشترکہ مشقوں میں اضافہ کیا جائے گا۔.آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ ملاقات میں باہمی تجارت میں اضافہ پر اتفاق ہوا ہے۔ دونوں ممالک میں مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے مواقع موجود ہیں۔ملاقات میں تعلیم، دفاع اور توانائی کے شعبے میں باہمی تعاون کے فروغ پر بھی بات چیت ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے عوام کی بہتری کیلئے مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا، آذربائیجان کے صدر نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کے دورہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دفاعی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کیلئے مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ کیا جائے گا۔یہ یاد رہے کہ پاکستان اور آذربائیجان، دو برادر مسلم ممالک، منفرد تاریخی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی مشترکات رکھتے ہیں- پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے 1991ء میں آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کیا- اس کے بعد 1992ء میں دونوں ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے-پاکستان باکو میں اپنا سفارت خانہ کھولنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا- آذربائیجان اور پاکستان حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں- دونوں ریاستوں نے ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے مختلف فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے- مثال کے طور پر، آذربائیجان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہے- دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا- دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ حکومتی سطح پر اعلیٰ سطحی رابطوں کا تبادلہ اور مضبوط تعلقات قائم کیے گئے- مزید یہ کہ پاکستان اور آذربائیجان کی قیادت باقاعدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئی ہے- پاکستان میں 2005ء کے زلزلے اور 2010ء-2022ء کے سیلاب میں اپنے آذربائیجانی بھائیوں کی طرف سے دی گئی عظیم مدد کو یاد کرتے ہیں- آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے سیلاب کے متاثرین کے لیے 2 ملین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی- پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں بھی اہم کردار ادا کیا- جہاں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا مستقل حصہ ہے- پاکستان نے آرمینیا کے ساتھ جنگ کے دوران آذربائیجان کی کثیر الجہتی پر مبنی حمایت کی اور آذربائیجان کے حق میں اپنی آواز بلند کی- پاکستانی عوام اور حکومت نے آذربائیجان میں اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا- اس جنگ کے وقت مسلم انسٹیٹیوٹ کے بانی صاحبزادہ سلطان محمد علی اور چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی نے بھی مشکل وقت میں آذربائیجان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کئی تقریبات آذربائیجان کے شہداء کے نام کیں -دونوں ممالک کے لوگ ایک ہی انداز میں اسلامی تہوار مناتے ہیں- دونوں ممالک کے درمیان تاریخی روابط بھی استوار رہے ہیں جو ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کرتی ہیں مثلاً آذربائیجان میں ملتان کاروان سرائے کو ملتان کے تاجروں کو آذربائیجان میں ٹھہرنے کے لیے بنایا گیا تھا- مشہور شاعر صائب تبریزی نے 17ویں صدی میں برصغیر کا دورہ کیا اور یہاں کچھ عرصہ قیام کیا- 1992ء میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد دونوں فریقوں نے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھا- مثال کے طور پر انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے آذربائیجان کی حیدر علییف فاؤنڈیشن کی خدمات بے مثال ہیں- یہ فاؤنڈیشن تعلیم کے شعبے میں انسانی اور سماجی منصوبے پیش کرتی ہے- ان کے کام کے اعتراف میں آذربائیجان کی خاتون اول مہربان علیئیوا کو ہلال پاکستان کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا- دونوں ممالک کے درمیان مزید مضبوط عوامی روابط قائم کرنے کے لیے جامعات اور تھنک ٹینکس کے اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں فریق ثقافتی روابط کے فروغ پر بھی کام کر رہے ہیں- اسلام آباد میں آذربائیجان کا سفارت خانہ پاکستانی شہریوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ تین دن کے بجائے صرف تین گھنٹے میں باآسانی آن لائن ویزے حاصل کر سکیں- ای ویزا سسٹم اور پاکستان سے آذربائیجان کیلئے براہ راست پروازیں شروع ہو گئی ہیں جس سے عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ ملے گا- آذربائیجانی یونیورسٹیز (خزر یونیورسٹی اور اے ڈی اے یونیورسٹی) کی طرف سے پاکستانی طلباء کو مختلف سکالرشپس کی پیشکش کی جا رہی ہے- پاکستانی و آذربائیجانی طلباء کے لئے سائنسی تحقیق، میڈیکل، انجینئرنگ اور مینجمنٹ سائنسز کی تعلیم حاصل کرنے کے بہت سے مواقع موجود ہیں جو ممکنہ طور پر ایک نالج کوریڈور بنا سکتے ہیں- آذربائیجانی عوام خاص طور پر طلباء پاکستانی زبان اور ثقافت کے بارے جاننے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں- یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ آذربائیجان کے طلباء اپنی ریاستی یونیورسٹیز میں پاکستان کی قومی زبان سیکھ رہے ہیں- اردو سیکھنا آذربائیجان کے طلباء کو پاکستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے متاثر کر رہا ہے- حال ہی میں اسلام آباد میں نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز میں آذربائیجان لینگویج اینڈ کلچرل سینٹر کا افتتاح کیا گیا- یہ پاکستان میں آذربائیجانی زبان اور ثقافت کو فروغ دے گا اور آذربائیجان لینگویجز یونیورسٹی میں اردو زبان اور ثقافت کی چیئر قائم کی جائے گی- مزید برآں، باکو میں یونیورسٹی آف لینگوئجز میں ایک فعال پاکستان کلچرل سینٹر ہے جو پاکستان کی ثقافت اور ادب کی تفہیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے- یہ آذربائیجان لسانیات، اردو لسانیات اور عمومی لسانیاتی سائنس کو بھی فروغ دے گا- ہمارے پاس آذربائیجان، ترکی اور اردو زبان میں روزمرہ استعمال کے ایک ہزار سے زیادہ ملتے جلتے الفاظ ہیں – دونوں ممالک کے عوام قریب آتے جا رہے ہیں- اس سے دیگر شعبوں بالخصوص تجارت میں تعلقات کو مزید گہرا کرنے میں بھی مدد ملے گی-آذربائیجان نے پاکستان کے ساتھ معدنی مصنوعات 1.6 ملین ڈالر، ٹیکسٹائل 1.2 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 8.74 ہزار ڈالر کی تجارت کی ہیں – پاکستان نے آذربائیجان کے ساتھ ٹیکسٹائل 4.68 ملین ڈالر، کیمیائی مصنوعات 2.32 ملین ڈالر اور سبزیوں کی مصنوعات 1.51 ملین ڈالر کی تجارت کی – تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بہت کم ہے اور اس میں اضافہ ہونا چاہیے- چونکہ حکومت آذربائیجان کی طرف سے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے ثقافتی تعلقات کو سیاحت کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے- پاکستان سے آذربائیجان آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ویزا کا طریقہ کار آسان ہو گیا ہے-وفاقی حکومت نے تقریباً ایک سال میں پہلی بار اسپاٹ مائع قدرتی گیس, ایل این جی کارگو کے لیے دو ٹینڈرز جاری کیے، جبکہ ایک معاہدے کا بھی اعلان کرنا جس کے تحت آذربائیجان ملک کو ماہانہ ایک ایل این جی کارگو فراہم کرے گا۔ بجلی کی پیداوار کے لیے گیس پر انحصار اور درآمدات کی ادائیگی کے لیے زرمبادلہ کی کمی کے باعث، ملک نے ایل این جی کے اسپاٹ کارگوز کی خریداری کے لیے جدوجہد کی جب گزشتہ سال روس کے یوکرین پر حملے کے بعد عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس سے اسے بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس سال ایشین اسپاٹ ایل این جی کی قیمتیں اگست میں $70 فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی ریکارڈ اونچائی سے کم ہوگئی ہیں، اور اب $10 سے کم ٹریڈ کر رہی ہیں۔ پاکستان ایل این جی، ایک سرکاری ذیلی ادارہ جو بین الاقوامی مارکیٹ سے ایل این جی خریدتا ہے، کے مطابق اکتوبر اور دسمبر میں کراچی کے پورٹ قاسم پر ڈیلیور شدہ ایکس شپ ,ڈی ای ایس کی بنیاد پر چھ کارگو مانگنے والا ایک ٹینڈر ہے۔
ڈلیوری ونڈوز 5-6 اکتوبر، 20-21 اور 31، اور دسمبر 7-8، 13-14 اور 24-25 ہیں۔ ٹینڈر 20 جون کو بند ہوگا۔
پاکستان کا دوسرا ٹینڈر 3-4 جنوری، 28-29 اور فروری 23-24 کی ڈیلیوری ونڈوز کے لیے ڈی ای ایس کی بنیاد پر پورٹ قاسم پر تین کارگو چاہتا ہے۔ دوسرا ٹینڈر 14 جولائی کو بند ہوگا۔
پاکستان ایل این جی نے آخری بار جولائی 2022 میں 10 سپاٹ کارگوز کے لیے ٹینڈر جاری کیا، لیکن کوئی پیشکش موصول نہیں ہوئی۔ اس کے علاوہ، پیٹرولیم کے وزیر مملکت مصدق ملک نے بتایا کہ آذربائیجان ہر ماہ ایک ایل این جی کارگو پاکستان کو “سستی قیمت” پر فراہم کرے گا۔ آذربائیجان کے ساتھ پہلے ہی ایک معاہدہ ہو چکا ہے اور یہ “جلد شروع ہو جائے گا”۔ پاکستان کے قطر کے ساتھ طویل مدتی سپلائی کے دو معاہدے ہیں، ایک 2016 میں 3.75 ملین میٹرک ٹن سالانہ ایل این جی کے لیے دستخط کیے گئے تھے، اور دوسرے پر 2021 میں 3 ملین میٹرک ٹن سالانہ کے لیے دستخط کیے گئے تھے۔
اس کے ساتھ سالانہ پورٹ فولیو معاہدہ بھی ہے۔ڈیٹا اینالیٹکس گروپ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2022 میں، پاکستان کی درآمدات 2021 میں 8.23 ملین میٹرک ٹن سے کم ہو کر سال کے لیے 6.93 ملین میٹرک ٹن رہ گئیں۔.