وزیراعظم شہباز شریف کی پاک چین دوستی لازوال نمونہ قرار
….وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چین نے ہمارے قرضوں کی تجدید کی جوکہ پاکستان کے ساتھ چین کی لازوال دوستی کا نمونہ ہے، دوست وہی ہوتا ہے جو آڑے وقت میں کام آئے، چین تاریخ میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ چشمہ 5 نیوکلیئر پلانٹ کی تعمیر کی مفاہمتی یادداشت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ یہ 2 عظیم دوست ممالک چین اور پاکستان کے درمیان ایک اہم موقع ہے، چشمہ سی فائیو 1200 میگا واٹ کا نیوکلیئر پاور پراجیکٹ ہے جس پر کسی تاخیر کے بغیر کام شروع کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں ایک اہم پیش رفت ہے، پاکستان کو درپیش اس مشکل معاشی صورتحال میں چین کی جانب سے اس منصوبے میں 4 ارب 80 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری یہ واضح پیغام دیتی ہے چینی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد برقرار ہے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ چین ایسے وقت میں ہماری مدد اور ریسکیو کے لیے آگے آیا جب پاکستان کو معاشی چینلجز درپیش ہیں اور آئی ایم ایف کی جانب سے قرض کے اجرا میں غیرمعمولی تاخیر ہورہی ہے، پاکستان کو چین کے علاوہ دیگر دوست ممالک کا بھی تعاون حاصل رہا ہے لیکن خاص طور پر اس موقع پر چین کی جانب سے مالی مدد انتہائی اہم ہے جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں پاکستانی قوم کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ چینی کمپنی ’چائنا نیوکلیئر کوآپریشن‘ اور پاکستان اٹامک انرجی کمینش کے درمیان چشمہ (سی) فائیو نامی 1200 میگاواٹ کا نیوکلیئر پلانٹ کی تعمیر کا معاہدہ ہوا ہے، 4 ارب 80 کروڑ ڈالر لاگت کا یہ منصوبہ بہت جلد تعمیر کے مراحل طے کرلے گا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس منصبوے کی بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورِحکومت میں رکھی گئی تھی جسے پچھلی حکومت نے سرد خانے میں ڈال دیا تھا اور آج اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے معاہدہ ہوا ہے، میری درخواست پر چینی کمپنی نے اس منصوبے کی لاگت میں مہنگائی کی عالمی شرح کے مطابق اضافہ نہیں کیا اور ہمیں 30 ارب روپے کا ڈسکاؤنٹ بھی دیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چین نے ہمارے قرضوں کی تجدید کی جوکہ پاکستان کے ساتھ چین کی لازوال دوستی کا نمونہ ہے، دوست وہی ہوتا ہے جو آڑے وقت میں کام آئے، چین پاکستان کی پوری تاریخ میں ہمیشہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے،
یاد رہےکہ جنوری میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے چینی ہم منصب لی کی چیانگ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کی بروقت تکمیل اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ماحول کی یقین دہانی کرائی تھی ۔اس حوالے سے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی بات چیت میں پاکستان اور چین کے درمیان ہر موسم میں آزمودہ اسٹریٹیجک شراکت داری کی بہترین روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے گرمجوشی اور دوستی کا اظہار کیا گیا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کو فروغ دینے اور چین کے بنیادی مفادات کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ وزیر اعظم لی نے وزیر اعظم شہباز کو یقین دلایا تھا کہ چین پاکستان کو ناصرف ایک اسٹریٹجک دوست بلکہ ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھتا ہے جس کا استحکام اور معاشی بہبود خطے اور چین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین ہمیشہ پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے چین کی مدد پر پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا تھا۔ لی کی چیانگ نے شہباز شریف کو پاکستان کی تعمیر نو کی کوششوں اور کانفرنس کی کامیابی کے لیے چین کی مسلسل حمایت کا یقین دلایا تھا۔
خیال رہےکہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے چین کا پہلا دورہ تھا۔وزیراعظم شہباز شریف نے دورہ چین میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی۔وزیراعظم نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کے طور پر دوبارہ انتخاب پر صدر شی جن پنگ کو مبارک باد دی تھی اور ان کی قیادت، دانش مندی، وژن اور عوام کے لیے ترقی کے فلسفے اور پاکستان اور چین کے تعلقات مسلسل مضبوط بنانے کے لیے ان کی خدمات کو سراہاتھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے اور تمام شعبوں میں عملی تعاون کو فروغ دینے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا تھا، فریقین نے دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی صورت حال اور بین الاقوامی سیاسی منظرنامے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیاتھا۔پاکستان اور چین کے رہنماؤں نے اس امر کا اعادہ کیا تھا کہ چین اور پاکستان کے درمیان قریبی اسٹریٹجک تعلقات اور گہری دوستی وقت کی ہر آزمائش پر پوری اتری ہے، پاک-چین دوستی دونوں ممالک کے عوام کا تاریخی انتخاب ہے جو دونوں ممالک کے مفادات پر پوری اترتی ہے۔چین کے رہنماؤں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی میں اولین ترجیح دی جائے گی، وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا تھا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون ہیں اور پاکستانی عوام ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی دوستی کی حمایت کرتے ہیں۔وزیراعظم نے ون چائنا پالیسی اور تائیوان، بحیرہ جنوبی چین، ہانگ کانگ، سنکیانگ اور تبت کے مسائل پر چین کی حمایت کے عزم کا اظہار کیا تھا ، چینی قیادت نے پاکستان کی خود مختاری، علاقائی سالمیت، سلامتی اور اس کی سماجی و اقتصادی ترقی اور خوش حالی کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا تھا ۔وزیراعظم شہباز شریف نے چین کی حکومت اور عوام کی طرف سے بروقت اور فراخ دلی سے فراہم کی جانے والی امداد کو سراہا تھا، جس میں امدادی سامان کی فراہمی، قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی صورت حال اور علاج معالجے کے لیے چینی ماہرین پر مشتمل ٹیموں کے کردار، تعمیرنو و بحالی کے لیے تجربے سے استفادہ اور علاج کی سہولت کے لیے تعاون شامل تھے۔چینی قیادت نے مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے بعد کے منصوبوں میں پاکستان کو مدد کی پیش کش جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا، وزیراعظم شہباز شریف نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) کی اعلیٰ معیار کی ترقی کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور پاکستان کی اقتصادی و سماجی ترقی کے لیے بی آر آئی کے تحت فلیگ شپ پراجیکٹ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی خصوصیات کو اجاگر کیاتھا۔پاکستان ریلوے کی مین لائن-ون (ایم ایل- ون) کو سی پیک فریم ورک کے تحت ایک اہم منصوبہ اور پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں نے قائدانہ اتفاق رائے پیدا کرنے اور اس پر جلد عملدرآمد کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیاتھا۔ کراچی سرکلر ریلوے کو فعال طور پر آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیاتھا، سی پیک کے اہم منصوبے اور بین العلاقائی رابطے کے لیے گوادر پورٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں فریقین نے اہم منصوبوں کی تکمیل پر اطمینان کا اظہار اور گوادر پورٹ اور فری زون کے دیگر متعلقہ منصوبوں پر پیش رفت تیز کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ سی پیک کے تحت زراعت، کان کنی، آئی ٹی، سماجی و اقتصادی ترقی کے شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کے لیے قیادت کے اتفاق رائے کے مطابق دونوں فریقین نے صحت، صنعت، ڈیجیٹل و گرین کوریڈورز قائم کرنے اور متعلقہ شعبوں میں تعاون پر اتفاق کیاتھا۔ چینی قیادت نے شمسی توانائی کے منصوبوں سمیت قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے قیام کے لیے پاکستان کی حکومت کی کاوشوں کو سراہا تھاجن میں توانائی کے شعبہ میں گرین، کم کاربن اور ماحولیاتی ترقی سے ہم آہنگ منصوبے شامل ہیں۔
دونوں فریقین نے پاکستان کی صنعتی ترقی کے لیے صنعتی تعاون سے متعلق فریم ورک معاہدے پر بھرپور عملدرآمد پر بھی اتفاق کیاتھا، دونوں فریقین نے سی پیک اور پاک چین دوستی کے خلاف تمام خطرات اور عزائم کو ناکام بنانے کے لیے اپنے پختہ عزم کا اظہار کیا تھا۔ پاکستان نے تمام چینی عملے، منصوبوں اور اداروں کی حفاظت کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا، چینی قیادت نے اس سلسلے میں پاکستان کے مضبوط عزم اور بھرپور اقدامات کو سراہا تھا، 2023 میں سی پیک کی نمایاں کامیابیوں کے عشرے کی تکمیل سے متعلق دونوں فریقین نے دونوں ممالک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں سی پیک کی اہمیت و کردار اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سی پیک جوائنٹ ورکنگ گروپ برائے بین الاقوامی تعاون و رابطہ کے حالیہ اجلاس نے سی پیک کو ایک وسیع اور جامع پلیٹ فارم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریق کا سی پیک تعاون کے ترجیحی شعبوں جیسے صنعت، زراعت ، آئی ٹی ، سائنس و ٹیکنالوجی اور تیل و گیس میں سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کا خیرمقدم کیا تھا۔ فریقین نے پاک چین آزادانہ تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کے فعال ہونے کے بعد سے دو طرفہ تجارتی حجم میں مسلسل اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے فریقین نے معاہدے کے تحت تجارتی لبرلائزیشن کو بڑھانے کے لیے مزید ہم آہنگی کا عزم کیا تھا۔ چین کی جانب سے برآمدات کو بڑھانے میں پاکستان کی فعال مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور پاکستان سے معیاری اشیا جن میں خوراک اور زرعی مصنوعات شامل ہیں کا چینی مارکیٹ میں خیر مقدم کیا، پاکستان کے برآمدی شعبوں میں سرمایہ کاری اور شراکت داری کی حوصلہ افزائی پر بھی اتفاق کیا گیا جو پائیدار دو طرفہ تجارتی ترقی کے حصول میں معاون ثابت ہوں گے۔ فریقین نے خنجراب سرحدی پورٹ پر سہولیات کو اپ گریڈ کر کے اور کسٹم کلیئرنس پر تعاون کو مضبوط بنا کر زمینی تجارت اور تبادلے کو مکمل طور پر فائدہ پہنچانے پر اتفاق کیا۔چین کی ای کامرس مارکیٹ کے بڑے سائز اور دو طرفہ تجارت کو مزید تقویت دینے کی اس کی صلاحیت کو تسلیم کرتے ہوئے دونوں فریقین نے ای کامرس پر ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کا خیر مقدم کیا اور چین کے ای کامرس پلیٹ فارم پر پاکستان کے پویلین کے قیام کی حمایت کی۔
دونوں فریقوں نے آن لائن ادائیگی کے نظام، لاجسٹکس، ویئر ہاؤسنگ اور کسٹمز کی سہولت پر تعاون مزید مضبوط بنانے اور مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے پر اتفاق کیاتھا۔اعلامیہ میں کہا گیاتھا کہ تجارت، سرمایہ کاری اور ای کامرس پر چین پاکستان مشترکہ ورکنگ گروپ اور چین پاکستان غربت کے خاتمے اور سماجی ترقی کے فورم کا پہلا اجلاس اس سال منعقد ہواتھا اور فارماسیوٹیکل میں تبادلے، زرعی اور جوتے بنانے والی صنعتوں کے ساتھ ساتھ غربت میں کمی کے حوالے سے صلاحیتوں میں اضافے سے متعلقہ کورسز کا انعقاد کیا گیا تھا ۔ دونوں فریقین نے پاکستانی طلبہ کو چین آنے کے لیے مزید سہولتیں فراہم کرنے کے لیے قریبی رابطے پر اتفاق کیاتھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چینی تعلیمی اداروں میں پاکستانی طلباء کی واپسی پر چینی قیادت کا شکریہ ادا کیا۔ فریقین نے 2023 پاک چین سیاحتی تبادلے کے سال کے طور پر منانے اور بیجنگ کے پیلس میوزیم میں گندھارا آرٹ کی نمائش کے انعقا د کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا تھا۔ دونوں اطراف نے دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان قریبی تعاون، اعتماد اور رابطے پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔دونوں فریقین نے ای کامرس ڈیجیٹل معیشت، زرعی مصنوعات کی برآمد، مالیاتی تعاون، ثقافتی املاک کے تحفظ، انفراسٹرکچر، سیلاب سے نجات، آفات کے بعد تعمیر نو کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کا احاطہ کرتے ہوئے متعدد معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیےتھے، جن میں جی ڈی آئی، جانوروں کی بیماریو ں پر قابو پانے، ذریعہ معاش، ثقافتی تعاون، خلائی جغرافیائی سائنس کے ساتھ ساتھ قانون کے نفاذ اور سیکیورٹی کے شعبے شامل تھے،واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالبا ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعہ قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ذمے واجب الادہ قرضوں میں گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین اور چینی کمرشل بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یاد رہےکہ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ نے چین کی جانب سے 70 کروڑ ڈالر قرض وصول ہونے کا اعلان کیا تو غالبا ان کی خوشی کی وجہ پاکستان کے کم ہوتے زرمبادلہ ذخائر میں اضافہ تھا لیکن چینی بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضے اب پاکستان کے ذمے واجب الادا مجموعہ قرض کا ایک تہائی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے ذمے واجب الادہ قرضوں میں گزشتہ سات سے آٹھ برسوں میں چین اور چینی کمرشل بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی قرضوں کی واپسی کو قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی زرمبادلہ ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ یاد رہےکہ پاکستان کو موجودہ مالی سال اور اگلے دو مالی برسوں میں بیرونی قرضوں کی مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ یاد رہےکہ موجودہ مالی سال کے باقی مہینوں میں پاکستان کو آٹھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس سے زیادہ بڑا مسئلہ اگلے دو مالی سالوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادہ 50 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے جو ان دو سالوں میں پاکستان کو واپس کرنا ہے جن میں چین اور چینی کمرشل بینکوں کو واپس کیا جانے والا قرض بھی شامل ہے۔ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے قرضے کی واپسی میں سہولت یقینی طور پر پاکستان کے اقتصادی محاذ کو لاحق خطرات کو کم کر سکتی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ری شیڈولنگ بھی بہت ضروری ہے۔ماہرین معیشت کے مطابق چینی قرضے کے بڑھنے کی وجہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں انرجی اور انفراسٹرکچر منصوبوں میں قرضے کی شکل میں چینی سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ پاکستان نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے اور زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے کے لیے بھی چینی کمرشل بینکوں سے قرضہ حاصل کیا ہےتازہ ترین مثال چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے منظور کیا جانے والا 70 کروڑ ڈالر کا قرضہ ہے جو وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ ذخائر کو بڑھانے میں مدد دے گا۔پاکسان کے ذمے مجموعی بیرونی قرضے کا حجم اس وقت 97 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، مختلف ملکوں سے حاصل کیا جانے والا، بیرون کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جانے والا اور بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ سے حاصل کیا جانے والا قرضہ شامل ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق اس قرضے میں پیرس کلب، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے علاوہ غیر ملکی کمرشل بینکوں سے حاصل کیا جانے والا قرضہ شامل ہے۔ پاکستان کے گزشتہ سات سالوں میں قرضہ لینے کے رجحان کا جائزہ لیا جائے تو 2015 میں بیرونی قرضہ جو جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا وہ 2022 میں جی ڈی پی کا 40 فیصد ہو گیا۔ پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے میں جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں، دوسرے ممالک اور کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضے شامل ہیں تاہم حکومت پاکستان اور مرکزی بینک کی رپورٹس میں ’پیرس کلب‘ اور ’نان پرس کلب‘ ممالک سے لیے گئے قرضے ظاہر کیے جاتے ہیں اور ملکوں کا انفرادی طور پر نام نہیں دیا جاتا۔تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے جب پاکستان کے ذمے قرض کی تفصیلات گزشتہ جائزہ مشن کے بعد پیش ہونے والی رپورٹ میں شائع ہوئیں تو ان تفصیلات کے مطابق چینی قرضہ اس وقت پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق چینی حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ 23 ارب ڈالر ہے جب کہ چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ تقریباً سات ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے۔ اس طرح مجموعی قرضہ تقریباً 30 ارب ڈالر بنتا ہے جب کہ پاکستان کے ذمے مجموعی قرضے کا حجم اس وقت تقریباً ساڑھے 97 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے جہاں قرضہ فراہم کیا گیا ہے تو چینی کمرشل بینکوں کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضے کو بھی چین کی جانب سے فراہم کیا جانے والا قرضہ ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ چینی کمرشل بینک حکومتی نگرانی میں چلتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں نیشنل بینک حکومت کے ماتحت چلنے والا بینک ہے۔ اگرچہ اس وقت چین کا قرضہ سب سے زیادہ ہے تاہم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر پاکستان کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا کام ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ قرض دینے والے ممالک یا ادارے مل کر یہ کام کرتے ہیں جیسا کہ ماضی میں پیرس کلب کے اراکین نے مل کر ایسا کیا تھا۔