وزیراعظم شہباز شریف کا دورہ آذربائجان
پاکستان اور آذربائیجان، دو برادر مسلم ممالک، منفرد تاریخی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور سیاسی مشترکات رکھتے ہیں-پاکستان دوسرا ملک تھا جس نے 1991 میں آذربائیجان کی آزادی کو تسلیم کیا- اس کے بعد 1992 میں دونوں ریاستوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے-پاکستان باکو میں اپنا سفارت خانہ کھولنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا- آذربائیجان اور پاکستان حقیقی معنوں میں برادر ملک ہیں- دونوں ریاستوں نے ہمیشہ قومی اور بین الاقوامی مسائل کے حل کے لئے مختلف فورمز پر ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے-
آذربائیجان مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرتا ہے اور پاکستان نگورنو کاراباخ کے معاملے پر آذربائیجان کے موقف کا حامی ہے-دونوں ممالک نے اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کا ساتھ دیا- دونوں ممالک کے درمیان ہمیشہ حکومتی سطح پر اعلی سطحی رابطوں کا تبادلہ اور مضبوط تعلقات قائم کئے گئے- پاکستان میں 2005 کے زلزلے اور 2010-2011 کے سیلاب میں اپنے آذربائیجانی بھائیوں کی جانب سے دی گئی عظیم مدد کو یاد کرتے ہیں- آذربائیجان کی حکومت کی جانب سے 2011 میں سیلاب کے متاثرین کے لیے 2 ملین امریکی ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی-
پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد کی منظوری میں بھی اہم کردار ادا کیا- جہاں واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ نگورنو کاراباخ آذربائیجان کا مستقل حصہ ہے- پاکستان نے آرمینیا کے ساتھ جنگ کے دوران آذربائیجان کی کثیر الجہتی پر مبنی حمایت کی اور آذربائیجان کے حق میں اپنی آواز بلند کی- پاکستانی عوام اور حکومت نے آذربائیجان میں اپنے بھائیوں کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا اظہار کیا-
1992 میں پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد دونوں فریقوں نے مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھا- انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے آذربائیجان کی حیدر علییف فانڈیشن کی خدمات بے مثال ہیں- یہ فانڈیشن تعلیم کے شعبے میں انسانی اور سماجی منصوبے پیش کرتی ہے- ان کے کام کے اعتراف میں آذربائیجان کی خاتون اول مہربان علیئیوا کو ہلال پاکستان کے اعلی ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا-آذربائیجانی عوام خاص طور پر طلبا پاکستانی زبان اور ثقافت کے بارے جاننے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں- آذربائیجان کے طلبا اپنی ریاستی یونیورسٹیز میں پاکستان کی قومی زبان سیکھ رہے ہیں- اردو سیکھنا آذربائیجان کے طلبا کو پاکستانی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے متاثر کر رہا ہے-
وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ آذر بائیجان کے دوران صدر الہام علیوف سے ملاقات کے دوران پاکستان اور آذر بائیجان کے درمیان توانائی’ زراعت’ ٹرانسپورٹ’ دفاع’ سرمایہ کاری وتجارت سمیت دیگر شعبوں میں بھی باہمی تعاون کو وسعت دینے پر اتفاق سے ددنوںممالک کے تعلقات کو نئی جہت ملے گی کیونکہ دونوں دوست ممالک کے لیڈروں کی عالمی معیشت کو درپیش چیلنجوں اور اقتصادی ومعاشی صورت پر گہری نظر ہے-آذر بائی جان کے صدر الہام علیونے باکو میں ملاقات کے دوران وزیر اعظم پاکستان کو یہ خوش خبری دی کہ آذر بائیجان کی قومی ایل این جی کمپنی ہر ماہ رعایتی قیمت پر ایک ایل این جی کارگو پاکستان بھجوائے گی-
آذر بائیجان پہلے ہی پاکستان سے درآمدی چاول پر امپورٹ ڈیوٹی سے استثنی دے چکا ہے- آذر ائیر لائن اسلام آباد اور کراچی کے لئے دو پروازیں چلائے گی-شمسی توانائی کے شعبے میں بھی آذر بائیجان پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا-دونوں ممالک کی قیادت میں دفاع کے شعبے میں بھی تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے- وزیر اعظم شہباز شریف کا آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا-
پاکستان اور آذر بائیجان کے مابین معیشت’ صنعت’ توانائی دفاع’ تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہونے کے باوجود ان کی عکاسی نظر نہیں آتی-دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم بھی بہت کم ہے اس میں اضافہ کرنے کے لئے ٹھوس حکمت عملی بنانے اور اقدامات عمل میں لانے کی اشد ضرورت ہے-حکومت آذربائیجان کی طرف سے ویزا کے طریقہ کار کو آسان بنایا گیا ہے، جس کے ذریعے ثقافتی تعلقات کو سیاحت کے ذریعے آگے بڑھایا جا سکتا ہے-
وسطی ایشیائی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں تو پاکستان توانائی کے شعبے میں بحران کا سامنا کر رہا ہے اس تناظر میں وسطی ایشیائی ممالک خصوصا آذر بائیجان کے ساتھ بہترین تعلقات اس بحران سے احسن انداز میں نمٹنے میں مدد دے سکتے ہیں- پاکستان کی زرعی پیدوار دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں پاکستان میں پیدا ہونے والی زرعی اجناس پوری دنیا کے ساتھ ساتھ آذر بائیجان میں بھی سپلائی کی جاتی ہیں دونوں ممالک کے درمیان زرعی اجناس کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی صنعت میں بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے-
آذر بائیجان کی جانب سے چاول پر ڈیوٹی ختم کرنے کے اقدام قابل تحسین ہے- دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر عائد ٹیکسز کو کم ترین سطح پر لانے سے چھوٹے تاجروں کے لئے تجارت کے مواقع اور مجموعی تجارتی حجم بھی بڑھے گا- پاکستان اور آذر بائیجان کے درمیان ایک کمیشن بھی موجودہے جو ہر دو سال بعد اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہم اپنے اقتصادی تعلقات کو کیسے بہتر بنا سکتے ہیں- باکو میں نیشنل بینک آف پاکستان کی شاخیں ہیں اور پاکستانی فارما انڈسٹری نے بھی آذربائیجان میں سرمایہ کاری کی ہے اور بھی کئی ایسے شعبہ جات ہیں جن میں ہم بنیادی طور پر دفاعی نظام پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں، دفاعی ساز و سامان اور توانائی کے شعبے کی ترقی پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے – آذربائیجان کو تیل اور گیس کے شعبے میں کافی مہارت حاصل ہے-
سرکاری مندوبین کے باقاعدہ دوروں کے ذریعے، ہم ٹھوس نتائج کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعاون پیدا کر سکتے ہیں- تعلیمی تعاون اس پائیدار بندھن کو مزید مضبوط بنا سکتا ہے اور دونوں ریاستوں میں سماجی و اقتصادی خوشحالی لا سکتا ہے- مجموعی طور پر سماجی و اقتصادی تعلقات کی مضبوطی کے ساتھ تجارتی اور کاروباری تعلقات کی ترقی دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگی- ماضی کی طرح اگر بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے کی حمایت کرتے رہے تو ان کی طاقت دوگنی ہو جائے گی-
پاکستان آذر بائیجان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کیلئے قابل قدر تعاون فراہم کر رہا ہے۔ آذری صدر نے اس حوالے سے مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافے کی بات کی ہے۔ باہمی تجارت کا حجم بڑھانے کی ایک مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط ہوئے ہیں جس سے دونوں ملک اپنی اپنی ضرورت کی اشیا ایک دوسرے سے منگوا سکیں گے۔ چین کے بعد روس اور سنٹرل ایشیاکے ملکوں سے تعلقات میں گرم جوشی خارجہ تعلقات میں پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے اس سے موجودہ اقتصادی بحران پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔