شہید بے نظیر بھٹو کی 70 ویں سالگرہ منائی گئی
ذوالفقار علی بھٹوشہید اور نصرت بھٹو کی شادی کے دو برس بعد ان کے ہاں” پنکی ”بے نظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو پنٹو نرسنگ ہوم کراچی میں پیدا ہوئیں،
شہید بے نظیر بھٹو اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی لاڈلی بیٹی ہونے کی وجہ سے بچپن میں ہی اپنے والد کے ساتھ غیرملکی دوروں پر جایا کرتی تھیں۔
بے نظیر بھٹو نے کم عمری میں ہی کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹ لیڈر بھی رہ چکی تھیں۔
1977ء میں اپنے والد سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری کے بعد وہ میدان سیاست میں اتریں، اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ انہوں نے جنرل ضیاء کی آمریت کا خوب مقابلہ کیا اور نظر بند کردی گئیں۔
1982ء میں بے نظیر بھٹو پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن منتخب ہوئیں۔ جلاوطنی کے بعد وہ 1986ء میں پہلی بار جب لاہور پہنچیں تو ان کا تاریخی استقبال ہوا اور انہوں نے ملک بھر کا دورہ کیا۔
1987ء میں بے بنظیر بھٹو آصف زرداری کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں اور 1988ء کے عام انتخابات میں تاریخ ساز کامیابی کے بعد وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو وہ دوبارہ جدجہد کے میدان میں آگئیں،
دوسری بار وہ پھر 1993ء میں وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن 1996ء میں پھر سے انہیں برطرف کردیا گیا۔
بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد اٹھارہ اکتوبر 2007ء میں جب وطن لوٹ آئیں تو کراچی ایئرپورٹ پر ایک بار پھر ان کا تاریخی استقبال ہوا تب کارساز کے مقام پر ان کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس میں اڑھائی سو سے زائد افراد شہید ہوئے۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو ملک بھر میں انتخابی جلسے کر رہی تھیں۔ اسی سلسلے میں 16برس قبل اسی روز 27 دسمبر کو سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کے فوراً بعد قتل کردیا گیا تھا جو ملک میں عام انتخابات سے قبل عوامی جلسے سے ان کا آخری انتخابی خطاب تھا۔ان کی زندگی بھی ایسے ہی لی گئی جیسے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا تھا۔ دونوں وزرائے اعظم میں تین قدر مشترک رہیں۔ وہ دونوں وزرائے اعظم رہے، ایک ہی جگہ قتل ہوئے اور تیسرے یہ کہ ان کے قتل آج تک پراسراریت کی لپیٹ میں ہیں۔
18؍ اکتوبر 2007 کو وطن واپسی کے بعد بے نظیر کی زندگی کو مسلسل خطرات لاحق رہے وہ ا نتخابات سے قبل 18 اکتوبر 2007 کو زندگی کو لاحق خطرات پر سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا انتباہ بھی نظرانداز کرکے لوٹ آئی تھیں وہ واپسی کے بعد اپنے جلوسوں پردو بڑے خودکش حملے سہہ گئیں جن میں 150؍ سے زائد افرادہلاک ہوئے، اکثریت پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی رہی، حملوں کے کچھ دنوں بعد انہوں نے متعلقہ حکام کو بھیجے گئے خط میں ان افراد کی نشاندہی کی جن پر شک کیا جاسکتا تھا۔
ان میں سابق فوجی سربراہ مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) حمید گل، پرویز مشرف کے قریبی معاون بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ، اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے بعد بےنظیر بھٹو دبئی چلی گئیں اس دوران 3؍ نومبر کو پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس نافذ کردی واپس آکر بےنظیر بھٹو نے انتخابی مہم شروع کردی۔ وہ مزید دو حملوں میں بچ گئیں حملہ آور پکڑے گئے۔
ایک پشاور میں گر فتار ہوا ۔ وہ واردات کرنے جارہے تھے لیکن پکڑے گئے۔ 18؍اکتوبر 2007 کے حملے کے بعد بے نظیرکی سکیورٹی ٹیم بھی تبدیل کردی گئی۔ سکیورٹی کی ذمہ داری ذوالفقار مرزا سے لے کررحمان ملک کو دے دی گئی۔
مہلک سانحے کے دن بے نظیرنے اس وقت کے افغان صدر حامدکرزئی سے ملاقات کی جنہوں نے خود بھی بے نظیر کو قتل کی سازش سے آگاہ کیا اس کے باوجود اپنے منصوبےپر عمل پیرا رہنے کا فیصلہ کیا۔
پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے علاوہ خود ان کی ٹیم نے سکیورٹی فراہم کرنی تھی لیکن لیاقت باغ میں سکیورٹی کی ایک سنگین خلاف ورزی کی گئی جہاں داخلے اور اخراج کے گیٹس پر سکیورٹی کلیئرنہیں کی گئی جس سے حملہ آوروں کو لیاقت باغ میں داخل ہونے اور بے نظیر کی گاڑی کے قریب تک جانے کا موقع مل گیا جب وہ جلسے سے خطاب کے بعد نیچے اترنے لگیں توا ن کے دائیں اور بائیں کوئی سکیورٹی اہلکار موجود نہ تھا وہ ناہید خان، صفدرعباسی اور مخدوم امین فہیم کے ساتھ روانہ ہونے والی تھیں۔
کار میں بیٹھنے کے بعد انہوں نے ن لیگ کے رہنما نواز شریف کو ٹیلی فون کرکے ان پر فائرنگ کی بابت دریافت کیا۔ سکیورٹی کے حوالے سے یکے بعد دیگرے سنگین کوتاہیاں ہوئیں جس نے رحمان ملک کے سکیورٹی پلان کو کھول کر رکھ دیا۔ انہیں کار کی چھت پر نہیں آنے دیا جانا چاہئے تھا جہاں بےنظیرکو سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی جن پر گولی چلائی گئی اور وہ اسپتال پہنچنے کے بعد جاں بحق ہوگئیں۔
بعد ازاں 2008 اور 2013میں پیپلزپارٹی کے دو ادوار حکومت میں تفتیش کے حوالے سے 18 اکتوبرکو کارسازحملے کے تناظر میں بھی سوالات اٹھتے ہیں۔ واقعہ کی کلیدی شہادت بےنظیر بھٹوکا بلیک بیری فون تفتیش کاروں کے حوالے کیوں نہیں کیا گیا اور دو سال تک رحمان ملک کی تحویل میں رہا۔ جے آئی ٹی کے رکن راؤ انوار نے کہا کہ اسی وجہ سے انہوں نے جے آئی ٹی پر دستخط نہیں کئے۔
بے نظیرکو کیوں قتل کیا گیا، اس سوال کا جواب ہنوز تشنہ طلب ہے۔ 1986 میں پاکستان میں اقتدار کے حلقوں نے بے نظیر کو کبھی قبول نہیں کیا۔ 1988ء میں دائیں بازو کا اتحاد بنا کر ان کی انتخابی کامیابی میں رکاوٹ ڈالی گئی بعد ازاں انہیں مشروط اقتدار پر متفق ہونے کے لیے آمادہ ہونا پڑا۔ 9ماہ میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی گئی جو مبینہ طور پر سابق صدر غلام اسحاق خان کی ایماء پر پیش کی گئی۔ بعد ازاں بالآخر برطرف کردیا گیا۔
1990میں پیپلزپارٹی کے مزید پرکاٹے گئے گو کہ برسوں بعد اصغرخان کیس میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور مخالفین میں رقوم تقسیم ہوئی تھیں۔
1993میں بھی بے نظیر بھٹو کی حکومت کو آئینی مدت مکمل کرنے نہیں دی گئی ان کے ہی صدر فاروق لغاری نے انہیں وزارت عظمٰی سے فارغ کردیا ۔
بے نظیر نے خود کو بتایا تھا کہ وہ روز اول سے ان کے لیے قبول نہیں تھیں۔ ان کے خیال میں عورت کو حکومت کا سربراہ نہیں ہونا چاہئے۔ فوج میں بھی ایک طبقے کو ان کے ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی ہونے پر تحفظات تھے کہیں بھٹو کی پھانسی کا بدلہ نہ لیں لیکن جنرل حمیدگل نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ بڑی محب وطن اور انتقامی جذبات کی حامل نہ تھیں۔ تحقیقات میں طالبان رہنما بیت اللہ محسود پر قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا جس سے بیت اللہ نے انکار کیا۔
بے نظیر کے بعد پاکستانی سیاست کے محرکات اور خود پیپلزپارٹی میں تبدیلیاں آگئیں تاہم بے نظیرکے بعد سے پیپلزپارٹی پھر سنبھل نہ سکی۔ اس کے بعد سے مصروف جدوجہد ہے۔ بے نظیر اس بات کی کلاسیکی مثال ہیں کہ محض مقبولیت اقتدار کی ضمانت نہیں ہوتی۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ملک بھر میں 70 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔