LOADING

Type to search

قومی قومی خبریں

چیئرمین سینٹ کی مراعات خزانے پر ڈاکہ

پاکستان کے ناقابل برداشت قرضے’ ٹیکس وصولی کی کم ترین شرح اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر اقتصادی ماہرین ہی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی ادارے بھی بھرپور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں-حکومت نے آئندہ مالی سال 2023-24 کے بجٹ میںمالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا5.1فیصد تجویز کیا ہے جبکہ موجودہ معاشی حالات دیکھتے ہوئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق بجٹ خسارہ اس سے زیادہ متوقع ہے-
پاکستان کی پارلیمان میں جاگیر داروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمائندگی موجودہ ہے-زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیر دار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات کم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبڈیز کے خاتمے پر بحث شروع ہوجاتی ہے-اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمائندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتا ہے-
صدر مملکت’ وزیر اعظم’ وزراء مشیران ومعاونین اور افسر شاہی کی سیکورٹی اور پروٹوکول کی مد میں قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اس وقت بھی ملک میں جتنے بھی سیاست دان موجود ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس نے طبقہ اشرافیہ سے فیض نہ اٹھایا ہو خواہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ن سے تعلق رکھتے ہوں یا تحریک انصاف سے فوائد حاصل کرنے والوں میں سب شامل ہیں-
ملک میں ہر نوع کی سرکاری اشرافیہ کی پر آسائش طرز زندگی پر قومی خزانے سے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین کنٹین سے جو کھانا کھاتے ہیں اس پر بھی انہیں سبسڈی دی جاتی ہے -ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کو بھی زمین’ سرمائے’ اور انفراسٹر کچر تک ترجیحی رسائی کے ساتھ ٹیکسوں کی چھوٹ کی صورت میں سالانہ تقریبا دو ارب ڈالرز کی مراعات دی گئی ہیں –
حکومتی سطح پر معاشی استحکام کے لئے حکومت کی کوششوں کو عام آدمی کی تائید وحمایت اس وقت حاصل ہوگی جب اس کی مشکلات میں کمی آئے گی اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وطن عزیز کے اقتصادی مسائل کا بوجھ نظم حکومت کی خرابی’ وسائل پر قابض اشرافیہ کی ہوس زر اور عوامی مسائل سے حکمرانوں کی لا تعلقی کے ساتھ مل کر ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے-
یہ بات بجائے خود تحقیق طلب ہے کہ گیس کی قلت’ بجلی کا بحران’ مہنگائی اور افراط زر کی صورت حال کس حد تک حقیقی ہے اور کتنی منصوبہ سازوں کی نااہلی یا جان بوجھ کر اختیار کردہ حکمت عملی کا شاخسانہ؟ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ایک جانب عوام پر آئے روز گیس’ پٹرولیم مصنوعات’ بجلی’ پانی’ اناج اور دوسری اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں اضافے کے تازیانہ برسائے جارہے ہیں تو دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے بااثر افراد سمیت ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ کے ٹھاٹھ باٹھ میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے-
ایک عام پاکستانی غریب’ سفید پوش دیہاڑی دار ااٹے’ گھی’ چینی پر ٹیکس ادا کرکے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بد حالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارنے پر مجبور ہے جبکہ بااثر افراد سمیت ملکی وسائل پر قابض اشرافیہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم پر اللوں تللوں میں مصروف ہے-
پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کی منظوری مہنگائی’ غربت اور بیروز گاری کے ہاتھوں پریشان غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے’ اتحادی حکومت کے سادگی اختیار کرنے اور ملک کو خود کفالت ‘ خود انحصاری کی جانب گامزن کرنے کے دعوئوں کی سر اسر نفی ہے-
ایوان بالا میں سیاسی جماعتوں بشمول حکومت اور اپوزیشن کا منظور کردہ سینٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل مراعات نہیں بلکہ قومی خزانے پر ڈاکہ اور ا نتہائی شرمناک فعل ہے-عوام کے دکھوں میں پریشان حال ایوان بالا کے منتخب نمائندوں کے منظور کردہ بل میں مراعات کی تفصیلات9صفحات پر مشتمل ہیں -بل کی منظوری میں رضا ربانی ، فاروق ایچ نائیک ، بہرمند تنگی ، تاج حیدر’ مشاہد حسین سید ،حافظ عبدالکریم ‘ ڈاکٹر شہزاد وسیم ،مہرتاج روغانی’ مولانا عبد الغفور حیدری ،روبینہ خالداور اے این پی کے ہدایت اللہ خان کا اہم کردار ہے-
بل کے تحت موجودہ ‘ سابق اور آئندہ آنے والے چیئرمین سینٹ کے لئے12سیکورٹی گارڈز کی منظوری دی گئی ہے جن میں6پرائیویٹ باقی پولیس’ رینجرز یا ایف سی سے دیئے جائیں گے’ سیکورٹی گارڈز کے علاوہ12عدد ریگولر یا کنٹریکٹ پر پرسنل سٹاف بھی مہیا کیا جائے گا-ان سہولیات میں سینٹ کی فنانس کمیٹی مزید اضافہ بھی کرسکتی ہے- کم از کم 8 لاکھ روپے سالانہ اپنے اختیار پر استعمال کر سکتے ہیں ، سینٹ کی فنانس کمیٹی اس میں کروڑوں رپے تک اضافہ کرنے کی مجاز ہوگی-
بل کے تحت فضائی حادثے میں جان چلے جانے کی صورت میں فیملی کو بھاری مراعات دی جائیں گی- چیئرمین سینٹ اور ان کے خاندان کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور بعد از مرگ ان کی بیوہ کو بھی یہ سہولت حاصل ہوں گی، یہ جہاں سے چاہیں علاج کرواسکتے ہیں حتی کہ اپنے گھر میں بھی انہیں یہ تمام سہولیات حاصل کر سکتے ہیں ۔ ملک اور بیرون ملک جانے کے لئے چارٹڈ طیارہ منگوا سکتے ہیں یہ طیارہ وفاقی ‘ صوبائی حکومت یا آرمڈ فورسز کا ہوگا اگر یہ طیارہ دستیاب نہیں ہوگا تو کسی بھی فلائنگ کلب سے لیا جاسکتا ہے-
موجودہ وسابق چیئرمینوں کو بیرون ملک دورے پر ڈپٹی ہیڈ آف سٹیٹ کا پروٹوکول دیا جائے گا ۔باہر کے دورے پر کمرشل جہاز میں فیملی کے ایک ممبر کو اپنے ساتھ لے جا سکیں گے جبکہ چارٹڈ جہاز میں چار فیملی ممبرز کو لے جانے کی اجازت ہوگی-فون کی فری سہولت دی جائے گی ۔ ان کا اپنا گھر ہو یا کرائے کا-ڈھائی سے تین لاکھ روپے ماہانہ کرائے کی مد میں ادا کئے جائیں گے-علاوہ ازیں گھر کے اندر فرنیچر بھی قومی خزانے سے مہیا کیا جائے گا-
خاندان کے استعمال کے لئے ایک سے زیادہ گاڑیاں بھی لے سکتے ہیں ان گاڑیوں کے ساتھ ڈرائیورز اور پٹرول اور دیا جائے گا- بے شمار الائونسز اور مراعات اس کے علاوہ ہوں گی
ایوان بالا کے منظور کردہ اس بل کے حوالے سے حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا موقف ہے کہ اس بل کو کبھی بھی قانون کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔دستور کے مطابق سینیٹ سے پاس ہونے کا بل منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں بھیجا جائے گا اور اگر قومی اسمبلی اس کو یکسر مسترد کردیتی ہے تو پھر یہ قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور اگر قومی اسمبلی کے ارکان اس بل میں کچھ ترامیم تجویز کرتے ہیں تو پھر یہ بل دوبارہ غور کیلئے سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ چند روز قبل چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل جب سینیٹ سے منظور ہوا تھا تو اس کو پیش کرنے اور پاس کروانے میں بھی ان دونوں جماعتوں کے ارکان کی اکثریت شامل تھی۔ ایوان بالا کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف وہیپ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی قیادت بل کے پاس ہونے پر سخت نالاں ہے اور پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک پرانی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال اشرافیہ کو ساڑھے سترہ ارب ڈالر کی مراعات دیتا ہے’ کیا ہم کسی بھی طرح یہ مراعات کم کرکے ملکی معیشت کو استحکام کی راہ پر نہیں ڈال سکتے؟ کیا ہماری اشرافیہ اتنی طاقتور ہے کہ ملک کو اس کے مفادات پر قربان کیا جارہا ہے اور کوئی بھی اس کے خلاف بات کرنے کو تیار نہیں ہے؟
حکمران اتحاد میں شامل دونوں بڑی جماعتوں کا موقف شلغموں سے مٹی جھاڑنے ‘ عوام اور اپنے ووٹروں کو بیوقوف بنانے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں- چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا یہ بل ان لوگوں کے لئے غور وفکر کا مقام ہے جو اندھی تقلید کا شکار ہوکر ہمہ وقت اپنے لیڈروں کی کر پشن’ بد عنوانیوں اور عیاشیوں کا دفاع کرتے ہیں اور ان کی خاطر ایک دوسرے کی خوشی’ غم حتی کہ جنازوں تک میں شرکت نہیں کرتے-اللہ تبارک تعالی اندھی نفرت’ اندھی محبت اور اندھی تقلید کا شکار سادہ لوح عوام کو شعور عطا فرمائے( امین)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com