سیلاب متاثرین کی بحالی و تعمیر کا ماسٹر پلان تشکیل
. پاکستان میں 2022 کے سیلاب نے تین کروڑ سے زیادہ آبادی کو متاثر کیا جس میں 1,700 سے زیادہ لوگ ہلاک اور تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ ملک کے صوبوں سندھ اور بلوچستان کو اس آفت نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا، پاکستان میں سیلاب سے تباہ کاریوں کا حجم بہت بڑا ہے، سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثرہ ہوئے۔گزشتہ برس پاکستان میں آنے والے سیلابوں سے 33 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ تھا، جہاں 23 لاکھ افراد بے گھر ہوئے جن کی ایک بڑی تعداد آج بھی خیموں میں رہنے پر مجبور ہے۔
.وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کو ہرگز نہیں بھولے، 15 جولائی تک بحالی و تعمیر کا ماسٹر پلان تشکیل دیا جائے گا۔ سیلاب کے بعد امداد و بحالی کے لیے ایک سو ارب روپے کی فوری ضرورت تھی جس میں سے 80 ارب روپے اس وقت جاری کیے گئے اور ہنگامی بنیادوں پر این ڈی ایم اے کے اسٹور سے سامان لیا گیا، گزشتہ دنوں ای سی سی نے این ڈی ایم اے کو اپنے اسٹاک کو مکمل کرنے کے لیے 12 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دی۔گزشتہ سال آنے والے بدترین سیلاب کے بعد عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین، یو این ڈی پی اور وزارت منصوبہ بندی پر مشتمل ایک باڈی تشکیل دی گئی جس نے ایک جامع اور مفصل رپورٹ تیار کی، اس میں سیلاب سے اقتصادی اور طبعی نقصانات کا اندازہ 30 ارب ڈالر کے قریب لگایا گیا تھا، اس باڈی نے تعمیر نو اور بحالی کے لیے فور آر ایف کے اصولوں کے تحت 16.3 ارب ڈالر کی ضرورت کا تخمیہ لگایا تھا، یہ اندازہ ایسے منصوبوں کا تھا جو 4 سے 5 سال میں مکمل ہونے ہیں، اس میں سے 11 ارب ڈالر کے قریب منصوبے سندھ میں ہیں جبکہ باقی بلوچستان اور جنوبی پنجاب سے متعلق ہیں۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ سیلاب متاثرین کے لیے وفاقی حکومت نے ایک سو ارب روپے کی رقم فراہم کی جو کہ سیلاب متاثرین کا ریاست پر حق تھا۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مستحق لوگوں میں 100 ارب روپے شفاف طریقے سے تقسیم کیے گئے اور یہ سیلاب متاثرین کا حق تھا۔ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کو ہرگز نہیں بھولیں گے، 15 جولائی تک بحالی و تعمیر کا ماسٹر پلان تشکیل دیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے سندھ حکومت کا 50 ارب روپے کا تخمینہ ہے جس میں سے 25 ارب وفاقی حکومت ادا کرے گی اور 25 ارب روپے سندھ حکومت فراہم کرے گی، اسی طرح یہ منصوبہ 50 فیصد کے حساب سے آگے بڑھے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح پانی کی سپلائی کے ’کے فور‘ منصوبے کے لیے آنے والے سال میں 6 ارب روپے درکار ہیں جس میں 3 ارب روپے وفاقی حکومت اور 3 ارب روپے حکومت سندھ فراہم کرے گی، اسی طرح سیلاب سے متاثرہ 18 سو اسکولوں کی تعمیر، مرمت و بحالی کے منصوبہ کے لیے 11.9 ارب روپے درکار ہیں، یہ منصوبہ بھی برابری کی بنیاد پر مکمل ہوگا، آنے والے مالی سال میں اس منصوبے کے لیے 4 ارب روپے درکار ہیں جس میں سے دو ارب روپے وفاقی حکومت اور دو ارب روپے سندھ حکومت فراہم کرے گی۔وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے منصوبے بھی اسی بنیاد پر مکمل ہوں گے،
ان منصوبوں میں کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے کیونکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی رپورٹ عالمی اداروں کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے بنائی ہے۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی زیر غور ہے، اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ، اس حوالے سے آج پھر اجلاس بلایا ہے، اس میں اس کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر اور بحالی کے لیے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے جس میں سے 11 ارب ڈالر سندھ میں خرچ ہوں گے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی بھی کوشش کی تاکہ ایک روڈ میپ بن جائے جس پر عمل پیرا ہو کر ہم معاشی بہتری کے سفر پر گامزن ہوں۔ سندھ سمیت سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ریلیف کے مرحلے میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے 80 ارب روپے تقسیم کیے گئے، جبکہ این ڈی ایم اے کے پاس ریلیف کا موجود سامان بھی تقسیم کیا گیا۔ صرف متاثرہ علاقوں میں گھروں اور انفرااسٹرکچر کی بحالی کے لیے 16 ارب 30 کروڑ ڈالر درکار ہوں گے، ڈونر کانفرنس میں مختلف ممالک اور اداروں کی جانب سے امداد کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ اس حوالے سے طویل اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر وزرا نے شرکت کی، وزیراعظم کی ہدایت پر میں بھی اس اجلاس میں موجود تھا جس میں کافی حد تک روڈ میپ تشکیل دے دیا گیا ہے، یہ چار سالہ وسط مدتی پروگرام ہوگا۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی زیر غور ہے، اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں،
واضح رہے کہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جانب سے یہ وضاحت وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے اس انتباہ کے ردعمل میں سامنے آئی ہے کہ پیپلز پارٹی پارٹی بجٹ کی منظوری کے لیے اُس وقت تک ووٹ نہیں دے سکتی جب تک بجٹ کے حوالے سے ان کے تحفظات دور نہیں کیے جاتے۔بلاول بھٹو زرداری، جو مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بھی ہیں، بلاول بھٹو نے ہفتے کو سوات میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم نے بجٹ میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے فنڈز رکھنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ان کی ٹیم کے کچھ ارکان ان وعدوں کو پورا نہیں کر رہے۔اُن کے اِس کے بیان کے ردعمل میں گزشتہ روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کی سیاسی جلسوں میں ایک دوسرے پر تنقید سے بےیقینی پیدا ہوگی، ہمیں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نیا محاذ کھولنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔احسن اقبال نے کہا کہ ہمیں جلسوں میں باتیں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے اور کابینہ کے اندر بیٹھ کر اپنا مؤقف رکھنا چاہیے تاکہ ہم ملک میں کسی سیاسی بےیقینی کو فروغ نہ دیں جو عمران خان کا شیوہ تھا۔ایسے معاشی مسائل 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی نہیں تھے‘
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو معاشی مسائل ہیں ایسے 1998 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی نہیں تھے جب آئی ایم ایف نے اپنا پروگرام بند کر دیا تھا، پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں، اس وقت آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں 8 ماہ لگے تھے۔ ہماری کوششوں سے اب ٹھہراؤ آیا ہے، ہم نے ملک کو ترقی کی جانب لے کر جانا ہے۔ ماضی میں میثاق جمہوریت میں بھی انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا، اس کے دو نکات کے علاوہ تمام نکات پر عملدرآمد بھی کیا گیا ہے۔ ہ ہم نے 2013 سے 2018 کے دوران ملک میں معاشی بہتری کے لیے میثاق معیشت کے لیے بھی کوششیں کیں تاکہ معاشی ترقی کے لیے ایک روڈ میپ بن جائے اور اس میں بغیر کسی تبدیلی کے ہر حکومت عمل کرے اور اس کی گواہ قوم ہو۔خیال رہے کہ مالی سال 2024 کا بجٹ پیش کیے جانے کے بعد سے حکومت کو تقریباً تمام اتحادی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مسلم لیگ (ن) کو قومی اسمبلی میں حکومتی بینچوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا، شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے حال ہی میں ایک سیاسی کارکن کی گرفتاری اور تشدد پر احتجاجاً بجٹ پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔ سکھر سے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی نعمان اسلام الدین شیخ نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو معیشت کی بہتری میں ’ناکامی‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا، حتیٰ کہ انہوں نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل کو وزارت خزانہ کے عہدے کے لیے زیادہ موزوں قرار دے دیا۔
نہ صرف اتحادی جماعتیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کی اپنی قیادت میں شامل چند اہم رہنما بھی پارٹی سے ناخوش دکھائی دیتے ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) سے استعفیٰ دے دیا ہے۔عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر مالی معاونت کی منظوری دے دی ہے۔عالمی بینک کے مطابق یہ رقم سیلاب متاثرین کی بحالی و تعمیرنو کے لیے منظور کی گئی ہے اور یہ رقم خیبرپختونخوا کے سیلاب متاثرین پر خرچ کی جائے گی۔عالمی بینک کا کہنا ہے خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے فنڈز منظور کیے گئے، رقم سے خیبرپختونخوا کے 55 لاکھ سیلاب متاثرین کو فائدہ ہوگا۔اس سے قبل اسلامی ترقیاتی بینک نے سیلاب سے متاثرہ پاکستانی علاقوں میں تعمیر نو اور بحالی کے لیے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر دینے کا اعلان کیا تھا ۔جنوری 2023 میں پاکستان کی سربراہی میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موسمیاتی تباہ کاریوں کے باعث ہونے والے نقصان کے ازالے اور مدد کے لیے کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا.عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں اگست 2022 کے سیلاب کے اثرات اور پالیسی بے یقینی نے پیداوار متاثر کی ہے۔7 جون کو جاری عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں اگست 2022 کے سیلاب کے اثرات اور پالیسی بے یقینی نے پیداوار متاثر کی ہے، درآمدی خوراک، توانائی اور خام مال کی ادائیگی کےلیے زرمبادلہ کی قلت رہی جب کہ صنعتی پیداوار مارچ 2023 تک 25 فیصد کم رہی۔عالمی بینک کا کہنا ہےکہ پاکستان میں اگست 2022 کے سیلاب کے اثرات اور پالیسی بے یقینی نے پیداوار متاثر کی ہے۔عالمی بینک کی رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ جنوبی ایشیاکی معاشی نمو اس سال معمولی کمی سے 5.9 فیصدرہےگی، مقامی پالیسیاں، عالمی مالیاتی حالات اور قدرتی آفات کئی معیشتوں کی نمو پر اثر انداز ہوں گے۔ عالمی بینک کا کہنا ہےکہ پاکستان میں اگست 2022 کے سیلاب کے اثرات اور پالیسی بے یقینی نے پیداوار متاثر کی ہے، درآمدی خوراک، توانائی اور خام مال کی ادائیگی کےلیے زرمبادلہ کی قلت رہی جب کہ صنعتی پیداوار مارچ 2023 تک 25 فیصد کم رہی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ زرمبادلہ کی قلت اور ورکرز ترسیلات کمی کے سبب حکومت نے زرمبادلہ لچک بڑھنے دی، روپے کی قدر سال کے آغاز سے 20 فیصد کم ہوئی ہے اور مہنگائی کی شرح مئی میں 38 فیصد رہی
۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زائد ہے اور پاکستان کو فوری طور پر تعمیر نو اور بحالی کے لیے 16 اعشاریہ 3 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ سیلاب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، پاکستان میں سیلاب نے متاثرین کی زندگی بدل کر رکھ دی ہے، آج ہم تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں، گزشتہ برس ستمبر میں یو این سیکرٹری جنرل کے ہمراہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، پاکستان کے عوام یو این سیکرٹری جنرل کے تعاون کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، عالمی برادری کے بھی تعاون پر مشکور ہیں، مشکل وقت میں مدد کرنے والے ممالک کو پاکستان نہیں بھولے گا۔سیلاب سے کاشتکاری کو شدید نقصان پہنچا جس سے غذائی قلت نے جنم لیا، تعمیر نو کے ساتھ ملکی معیشت کی بحالی ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے، سیلاب سے نقصان کا تخمینہ 30 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 8 فیصد ہے۔ پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب سے 33 ملین لوگ متاثر ہوئے، انفرا اسٹرکچر کی تباہی سے معیشت بری طرح متاثر ہوئی، سیلاب سے مکانات، تعلیمی ادارے، زراعت کے شعبے کو نقصان پہنچا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تاحال سیلاب کا پانی موجود ہے، سیلاب متاثرین کو دوبارہ بحال کر کے اچھا مستقبل دینا ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لیے فریم ورک تیار کیا ہے، فریم ورک پر کام کرنے کے لیے 16.3 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اتنا بڑا سیلاب اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا، سندھ کا میدانی اور بلوچستان کا پہاڑی علاقہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا، خوف آتا تھا کہ کس طرح ان متاثرین کی مدد کریں گے۔ شہباز شریف نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ جن حالات میں ہم نے حکومت سنبھالی تھی، آئی ایم ایف سے معاہدہ ٹوٹ چکا تھا اور مہنگائی عروج پر تھی لیکن اس کے باوجود وفاق نے سیلاب متاثرین کے لیے 100 ارب روپے خرچ کیے اور ابھی بھی سیلاب متاثرین کے لیے کئی سو ارب روپے درکار ہیں۔ پاکستان کی سربراہی میں سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں موسمیاتی تباہ کاریوں کے باعث ہونے والے نقصان کے ازالے اور مدد کے لیے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یو این سیکرٹی جنرل انتونیو گوتریس کا کہنا تھا میں نے خود پاکستان جا کر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، پاکستان میں سیلاب کے باعث بہت بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا حال دیکھ کر دل ٹوٹ گیا لیکن مشکل حالات میں بھی پاکستانی عوام کا جذبہ دیکھ کر حیران ہوا۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا پاکستان کو تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کرنا پڑا، مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان کی حکومت اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کا کہنا تھا فرانسیسی عوام اور حکومت کی جانب سے پاکستانی عوام سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، پاکستان کے عوام نے بہادری سے سیلاب سے ہونے والی تباہی کا مقابلہ کیا۔ ایمانوئیل میکرون کا کہنا تھا فرانس پاکستان کی سپورٹ کے لیے 10ملین ڈالر دے گا، ہم مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان کی حمایت کرنا چاہیں گے،