LOADING

Type to search

قومی قومی خبریں

ملٹری کورٹس میں شہریوں کا ٹرائل، چیف جسٹس نے عید سے قبل فیصلے کا عندیہ دیدیا

سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، چیف جسٹس آف پاکستان نے عید سے پہلے کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ منگل تک اس کیس کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فوج چارج کرسکتی ہے ٹرائل سول عدالت میں چلے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے نے ریمارکس دیئے ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی، ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کا آغاز ہوگیا۔سپریم کورٹ میں لارجر بینچ کی سماعت کے باعث دیگر بینچز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی، سپریم کورٹ میں 3 معمول کے بینچز نے مقدمات کی سماعت کرنا تھی۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہوسکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں، میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرادیئے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرا مقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص شہریوں کا ٹرائل خلاف آئین ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟، کن وجوہات کی بنا پر شہریوں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟۔

جسٹس منصور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، انہوں نے پوچھا کہ سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟، جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کررہے تو قانون کی بات کریں۔فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جاکر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہوگا ان کو اپیل کا حق ملے گا لیکن جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔

دوران سماعت جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟، آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتادیں، جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ قانونا اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، فوج چارج کرسکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟، کوئی دستاویز تو دکھادیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com