آئی ایم ایف سے معاہدہ کے لیے حکومت کا بجٹ پر نظرِ ثانی کا عندیہ
حکومت نےآئی ایم ایف سے معاہدہ کے لیے بجٹ پر نظرِ ثانی کا عندیہ دیا ہے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے اپنے مالی سال 2024 کے بجٹ میں متعدد تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ رکے ہوئے پیکیج کو حاصل کرنے کی آخری کوشش کی جائے۔قومی اسمبلی میں اختتامی بجٹ تقریر کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف نے زیر التوا جائزہ کو مکمل کرنے کی آخری کوشش کے طور پر تفصیلی مذاکرات کیے تھے۔ آئندہ ماہ سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے وفاقی حکومت نئے ٹیکس کی مد میں مزید 215 ارب روپے جمع کرے گی اور اخراجات میں 85 ارب روپے کی کمی کرے گی، اس کے ساتھ ساتھ مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے کئی دیگر اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ نئے ٹیکسوں میں 215 ارب روپے کی تجویز مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئی، اس بات کا خیال رکھا گیا کہ ٹیکس کا بوجھ غریب اور کمزور طبقات پر نہ پڑے
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند ماہ سے قوم سوال کر رہی تھی کہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ کامیاب ہوگا یا نہیں، میں اس معاملے پر عوام کو اعتماد میں لینا چاہتا ہوں۔ حکومت نے تمام پیشگی کارروائیاں مکمل کر لی ہیں اور فنڈ کے مطالبے کی تعمیل حاصل کر لی ہے لیکن بیرونی مالیاتی فرق کی وجہ سے پاکستان کا کیس اس کے سامنے نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جائزہ کو آگے بڑھانے کے لیے ’آخری حتمی دھکا‘ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے بعد نویں جائزے کو مکمل کرنے کے لیے گزشتہ تین روز میں آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ تفصیلی مذاکرات کیے گئے۔ بجٹ کے حوالے سے اراکین پارلیمان کی جانب سے مختلف معاملات پر اہم تجاویز دی گئی ہیں، سینیٹ سے 169 تجاویز موصول ہوئیں جن میں سے 19 عمومی نوعیت کی، پوری کوشش کی گئی ہے مشکل حالات کے باوجود جن تجاویز پر عمل ممکن ہو انہیں مکمل یا جزوی طور پر شامل کرلیا جائے
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ٹیکس ریونیو میں اضافے کی شدید ضرورت ہے، سپر ٹیکس زیادہ آمدنی والے افراد پر لگایا جاتا ہے اور جو یہ ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں، صرف ان پر لاگو ہوتا ہے، اس لیے حکومت اسے ان تبدیلیوں کے ساتھ برقرار رکھ رہی ہے۔یکس کی شرح کو بھی مزید پروگریسیو کیا ہے پہلے سیدھا 10 فیصد تھا جسے بتدریج 6، 8 اور 10 فیصد کردیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس کے نفاذ کے انکم سلیب کو 30 کروڑ روپے سے بڑھا کر 50 کروڑ روپے کردیا جبکہ پنشن اصلاحات پر بھی کام شروع ہوگیا جس کے تحت ایک سے زائد اداروں سے پنشن وصول کرنے پر پابندی ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس اس ٹیکس کے نفاذ کے لیے خصوصی شعبے منتخب کیے گئے تھے اور ان پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا تھا لیکن اس تفریق کو ختم کردیا ہے اور سلیبز کو بڑھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال ملکی معیشت کے حالات کے باعث درآمدت پر کافی پابندیاں عائد کی تھیں کیوں کہ ہماری ترجیح بیرونی ذمہ داریاں پوری کرنا تھا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ان تمام پابندیوں کو واپس لے لیا گیا ہے جس کے بعد کاروباری برادری کو درپیش مشکلات ختم ہوجائیں گی۔ نان فائلرز کے بینک سے رقم نکالنے پر 0.6 فیصد کی شرح پر میں واضح کردوں کہ یہ معیشت کو دستاویزی بنانے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اہم قدم ہے۔ بعض اراکین نے بونس شیئر پر ٹیکس پر اعتراض اٹھائے، کمپنیاں شیئر ہولڈرز کو نقد یا بونس شیئر کی صورت میں منافع جاری کرتی ہیں، شیئر ہولڈرز جب اپنے شیئرز فروخت کرتے ہیں تو اس پر15 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن بونس شیئر کی صورت میں منافع وصول کرنے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا تھا اس لیے ہم نے دونوں پر ٹیکس عائد کردیا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام اقدامات کریں گے کہ کاروباری اعتماد متزلزل نہ ہو۔وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ توانائی کی بچت کے منصوبے کے تحت کابینہ نے زیادہ توانائی کھینچنے والے پنکھوں پر 2 ہزار روپے فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم نے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ متعدد اجلاس کیے جس کا مقصد ریونیو اکٹھا کرنا نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ کمپنی اپنی ٹیکنالوجی تبدیل کر کے نئی ٹیکنالوجی اپنالیں کیوں کہ وہ پنکھے بہت زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کے علاہ بجلی کے پرانے بلبوں کا بھی یہی معاملہ تھا جس کے بعد اشتہارات کے ذریعے صنعت کو اس تبدیلی کے لیے وقت دینے کی اپیلیں کی گئیں تا کہ وہ اپنی تیاری کرسکیں چنانچہ ہم انہیں 6 ماہ کی مہلت دے رہے ہیں اور یہ ٹیکس اب یکم جنوری 2024 سے نافذ ہوگا۔ وفاقی حکومت کے تقریباً 32 کھرب روپے مختلف ٹیکس جوڈیشل فورم پر زیر التوا 62 ہزار مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں، جس کے جلد حل کے لیے آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولوشن سی (اے ڈی آر) میں ٹیکس دہندگان کا ایک اور محکمے کا ایک نمائندہ شامل کرنے اور اس کی سربراہی ہائی کورٹ کے جج کو سونپنے کی تجویز دی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سے حکومت نہ صرف واجب الادا ٹیکس وصول کرسکے گی بلکہ عدالتی فومرز پر بوجھ بھی کم ہوگا اور قانونی چارہ جوئی کی لاگت میں بھی کمی آئے گی۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے عام آدمی کی ضروریات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئندہ مالی سال کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن کو رمضان پیکج کے تحت 5 ارب اور وزیراعظم ریلیف پیکج کے تحت سستی اشیا کے لیے 34 ارب روپے مختص کیے گئے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے آئندہ مالی سال کے لیے 450 ارب روپے رکھے تھے لیکن اب اس پر نظرِ ثانی کر کے 16 ارب روپے کا اضافہ کر کے 466 ارب روپے کردیا گیا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود دفاعی بجٹ کے تحت مسلح افواج کو ضروری فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود دفاعی بجٹ کے تحت مسلح افواج کو ضروری فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے اور اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آنے دی جائے گی، بجٹ میں مختص رقم کو وقت پر جاری کیا جائے گا۔ 9 جون کے فنانس بل میں پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں اضافے کا اختیار وفاقی حکومت کو دینے کی تجویز تھی لیکن دونوں ایوانوں کے اراکین نے تجویز دی کہ وفاقی حکومت کو یہ اختیار لا محدود نہ دیا جائے اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ یہ اختیار 60 روپے سے زائد نہیں ہوگا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے لیے اعلان کردہ سادگی اور کفایت شعاری کی پابندیاں آئندہ مالی سال بھی جاری رہیں گی۔موسمیاتی تبدیلی، زراعت کے فروغ، تحفظ خوراک کے لیے بجٹ میں ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی حکومت اس ضمن میں صوبائی اسمبلیوں کے مشاورت سے اقدامات اٹھائے گی۔ مالی مشکلات کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کو عوام تک پہنچایا گیا اور آگے بھی اس کو جاری رکھا جائے گا۔ قومی بچت اسکیموں بہبود سرٹیفکیٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکاؤنٹ کے تحت سرمایہ کاری کی حد کو 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی تھی جس کے بعد اراکین کی تجویز پر اس حد کو پینشنرز بینیفٹ اکاؤنٹ کی اسکیم میں بھی لاگو کیا جارہا ہے۔وفاقی پینشن کے سالانہ اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ ناقابل برداشت ہوچکے ہیں، اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، چنانچہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پنشن فنڈ قائم کردیا گیا ہے جس کے اصول و ضوابط پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ اس سسٹم میں کئی ہائی پروفائل لوگ متعدد پنشنز وصول کرتے ہیں جو ایک ادارے سے ریٹائر ہو کر دوسرے ادارے میں جاتے ہیں اور دونوں اداروں سے پنشن وصول کرتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو 3، 3 پنشنز وصول کررہے ہیں، ملک اس صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی پینشن کے سالانہ اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور یہ ناقابل برداشت ہوچکے ہیں، اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، چنانچہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پنشن فنڈ قائم کردیا گیا ہے جس کے اصول و ضوابط پر کام بھی شروع ہوگیا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سسٹم میں کئی ہائی پروفائل لوگ متعدد پنشنز وصول کرتے ہیں جو ایک ادارے سے ریٹائر ہو کر دوسرے ادارے میں جاتے ہیں اور دونوں اداروں سے پنشن وصول کرتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں جو 3، 3 پنشنز وصول کررہے ہیں، ملک اس صورتحال کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اصلاحات کے تحت 17 گریڈ یا اوپر کا ایک سرکاری ریٹائر افسر صرف ایک ادارے سے پنشن وصول کرسکے گا، یہ اس کی صوابدید پر منحصر ہے کہ وہ کئی اداروں میں سے کس ادارے سے پنشن لینا چاہے گا۔پنشن کے حساب کتاب کے وقت ایڈہاک پنشن الاؤنس کو کمپاؤنڈنگ کے بغیر نیٹ پنشن میں شامل کیا جائے جبکہ تیسری اصلاحات یہ ہوگی کہ پنشنر، اس کے شریک حیات کی وفات کے بعد ان پر انحصار کرنے والے فیملی ممبر 10 سال کے لیے پنشن وصول کرسکیں گے۔وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ پنشن کا حقدار بن جانے کے بعد سرکاری افسر کے کسی دوسری ملازمت کرنے کی صورت میں پنشن یا تنخواہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔یاد رہے وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص کی گئی تھی ۔بجٹ کے اہم نکات میں مالی سال 2024 کے بجٹ کا حجم 14 ہزار 460 ارب روپے رکھا گیا تھا ,ترقیاتی منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 1150 روپے کی تاریخی رقم مختص تھی,
اشیائے ضروریہ کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا تھا
پرائم منسٹر یوتھ لون کے لیے 10 ارب روپے مختص تھے
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے لیے کرنٹ اخراجات میں 65 ارب اور ترقیاتی اخراجات کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیا تھا
بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کیا گیا تھا
50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص تھے
معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے استعمال شدہ (سیکنڈ ہینڈ) کپڑوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کیا گیا تھا
انفارمیشن ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کے لیے اس سے منسلک آلات سے ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز تھی,
اگلے مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تھا
معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کیا گیا تھا
کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کرنے کی تجویز، گریڈ 16-1 اور 22-17 کے سرکاری ملازمین کے لیے بالترتیب 35 اور 30 فیصد اضافہ
صحافیوں کی ہیلتھ انشورنس کے لیے ایک ارب روپے مختص تھی,
ڈیبٹ/کریڈٹ یا پری پیڈ کارڈز کے ذریعے نان-ریزیڈنٹ کو ادائیگی پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں ایک فیصد سے 5 فیصد تک اضافے کی تجویز تھی
کیفے، فوڈ پارلر، وغیرہ اور اسی طرح تیار/پکا ہوا کھانا فراہم کرنے والی دیگر آؤٹ لیٹس وغیرہ میں ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈز، موبائل والٹ یا کیو آر اسکیننگ کے ذریعے ادائیگی کی صورت میں 5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز تھی,ان کا کہنا تھا کہ آج پاکستان تاریخ کے مشکل ترین مراحل سے گزر رہا ہے، خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت ہے، اس لیے مالی سال 22-2021 تک کی معاشی صورتحال کا ایک جائزہ ایوان کے سامنے رکھوں گا۔ پی ٹی آئی کی غلط معاشی حکمت عملی کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 17.5 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے، آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل پاکستان کے لیے اہم تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس صورتحال کو جان بوجھ کر خراب کیا۔اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی دی، ایسے اقدامات اٹھائے جو آئی ایم ایف شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی، سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے 2 صوبائی وزارئے خزانہ کو فون کر کے آئی ایم ایف پروگرام سبوتاژ کروانے کی کوشش کی۔ ان اقدامات سے نئی حکومت کے لیے بارودی سرنگیں بچھائی گئیں جس سے نہ صرف مالی خسارے میں اضافہ کیا بلکہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے تعلقات کو بھی نقصان پہنچایا۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی حکمت عملی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت مالی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ تھا، مالی سال 22-2021 کا خسارہ جی ڈی پی کے 7.89 فیصد کے برابر ہے جبکہ پرائمری خسارہ جی ڈی پی کے 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔جون 2018 میں پاکستان کا قرضہ تقریباً 250 کھرب تھا، پی ٹی آئی کی معاشی بے انتظامی کے سبب یہ قرض مالی سال 22-2021 میں 490 کھرب تک پہنچ گیا، 4 سالہ دور میں اتنا قرض لیا گیا جو 1947 سے 2018 تک لیے جانے والے قرض کا 96 فیصد تھا۔اسحٰق ڈار نے بتایا کہ اسی طرح قرضے اور واجبات اسی عرصے میں 100 فیصد سے بڑھ کر 300 کھرب سے 600 کھرب روپے تک پہنچ گئے، جون 2018 میں غیر ملکی قرضے اور واجبات 95 ارب ڈالر تھے جو کہ جون 2022 تک 130ارب ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو 2013 میں 503 ارب روپے کا گردشی قرضہ ورثے میں ملا جو 208 تک بڑھ کر 1148 ارب روپے پر پہنچ گیا، پی ٹی آئی کے 4 سالہ دور میں یہ 1319 ارب روپے کے اضافے کے ساتھ 2467 ارب روپے پر پہنچ گیا۔ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے خسارے کو کم کرنے کے لیے کفایت شعاری سے کام لیا اور اخراجات میں کمی گئی، ان اقدامات کے نتیجے میں بجٹ خسارہ پچھلے مالی سال میں جی ڈی پی کے 7.9 فیصد سے کم ہوکر رواں مالی سال میں جی ڈی پی کا 7.0 فیصد ہوگیا، بنیادی خسارے کو صرف ایک سال کی مدت کے دوران جی ڈی پی کے 3.1 فیصد سے کم کرکے 0.5 فیصد پر لایا گیا۔ ملکی معیشت کو ایک سال کے دوران کئی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، سیلاب کے سبب معاشی نقصانات کا تخمینہ 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ادارے ‘ایف اے او’ کے تخمینے کے مطابق سال 2021 کے برعکس سال 2022 کے دوران عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں 14.3 فیصد کا اضافہ ہوا، تیل، گندم، دالیں، خوردنی تیل اور کھاد کی ہمیں زرمبادلہ میں ادائیگی کرنا پڑی جو مہنگائی میں اضافے کا باعث بنا، یوکرین جنگ، عالمی سطح پر تیل و گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور مغربی ممالک میں شرح سود میں اضافے نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا۔ مہنگائی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے چند ماہ قبل بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیے جانے والے کیش ٹرانسفر میں 25 فیصد تک اضافہ کردیا ہے، بجٹ کو 260 ارب سے بڑھا کر 400 ارب کردیا گیا ہے، اس کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے ہوچکا ہے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کی گئی، سستی اشیا کی فراہمی کے لیے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں حکومت نے 2 مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کی، امید ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال اندرونی اور بیرونی مشکلات کے سبب بڑی صنعتوں کی پیداوار میں منفی نمو کا رجحان رہا، اس کی بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا رجحان تھا، جس کے سبب خام مال کی دستیابی میں مشکلات پیدا ہوئیں، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے خام مال کو ترجیحی بنیاد پر ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے، حکومت اگلے مالی سال اس رجحان کو ریورس کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، اسی طرح عالمی منڈیوں می قیمتوں میں گراوٹ، ترقی یافتہ ممالک میں انوینٹری میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے ایل ایس ایم میں بہتری آئے گی۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ اب میں آپ کو بجٹ مالی سال 24-2023 کی عمومی سمت کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، معیشت میں بہتری کی سمت کے باوجود ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے، ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے آئندہ مالی سال کے لیے جی ڈی پی کا ہدف صرف 3.5 فیصد رکھا ہے جو کہ ایک مناسب ہدف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی ملک عام انتخابات کی طرف جانے والا ہے، اس کے باوجود اگلے مال سال کے بجٹ کو ایک الیکشن بجٹ کے بجائے ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بھرپور مشاورت کے بعد خاص طور پر معیشت کے ان چیدہ نکات کو منتخب کیا ہے جن کی بدولت ملک کم سے کم مدت میں ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن ہوسکتا ہے، اسحٰق ڈار نے کہا کہ زیادہ تر معاشی سرگرمیاں اشیا کی سپلائی، کانٹریکٹس پر عملدرآمد، سروسز کی فراہمی سے متعلق ہوتی ہیں، ان ٹرانزیکشنز نے حکومت کو ہونے والی آمدن میں اضافے کے لیے ایک فیصد ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز ہے اور اس کا اطلاق افراد اور کمپنیوں پر ہوگا۔جن سروسز پر رعایتی ٹیکس عائد ہوتا ہے ان کی شرح میں ایک فیصد اضافہ کرنے کی تجویز ہے۔ اس تجویز کا اطلاق چاول، کپاس کے بیج، خورونی تیل، پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا اور اسپورٹس پرسنس پر نہیں ہوگا۔کچھ کمپنیاں ٹیکس سے بچنے کے لیے کیش ڈویڈینڈ تقسیم کرنے کے بجائے بونس شیئر جاری کرتی ہیں، اس لیے ڈویڈینڈ پر ٹیکس اکٹھا کرنے کی غرض سے درج کی گئی اور غیر لسٹڈ کمپنیوں پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا جارہا ہے۔زرمبادلہ کے ذخائر کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں اس میں کمی لانے والی خامیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے اس لیے ڈیبٹ کارڈز، کریڈٹ اور بینکنگ چینلز کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کے اخراج کی حوصلہ شکنی کرنے لیے فائلر پر ودہولڈنگ ٹیکس کی موجودہ شرح ایک فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کی جارہی ہے جبکہ نان فائلر پر یہ شرح 10 فیصد ہوگی۔ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کے ریٹیلرز پر جی ایس ٹی کی موجودہ شرح 12 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جا رہی ہے، حکومت کو سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے، افراط زر کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح سرکاری ملازمین کی قوت خرید میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ شدید مالی مسائل اور وسائل کی کمی کی کے باوجود سرکاری ملازمین کے لیے ریلیف اقدامات کیے جارہے ہیں۔
سرکاری ملازمین کی قوت خرید بہتر بنانے کے لیے تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف الاؤنس کی صورت میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ڈیوٹی اسٹیشن سے باہر سرکاری سفر اور رات کے قیام کے لیے ڈیلی الاؤنس اور مائلیج الاؤنس دیا جا رہا ہے۔
اضافی چارج/ موجودہ چارج/ ڈیپوٹیشن الاؤنس، آرڈرلی الاؤنس، معذور افراد کے لیے خصوصی کنوینس الاؤنس، مستقل اٹینڈنٹ الاؤنس (ملٹری) شامل ہیں۔
مجاز پنشنرز کا ڈرائیور الاؤنس۔
سرکاری ملازمین کی پنشن میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
سرکاری ملازمین کی کم از کم پنشن 12 ہزار روپے کی جارہی ہے۔
آئی سی ٹی کی حدود میں کم سے کم اجرت کو 25 ہزار روپے سے بڑھا کر 32 ہزار روپے کیا جا رہا ہے۔
ملازمین اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کی پنشن کو 8 ہزار 500 سے بڑھا کر 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔
مقروض افراد کی بیواؤں کی امداد کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت کے بجٹ میں اسکیمز کا اجرا کیا گیا تھا، مالی سال 24-2023 کے حوالے سے ایسی ہی اسکیم ہاؤسنگ بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی مقروض بیواؤں کے لیے متعارف کی جارہی ہے، اس کے تحت ان بیواؤں کے 10 لاکھ روپے تک کے بقیہ قرضہ جات حکومتِ پاکستان ادا کرے گی۔
سی ڈی این ایس کے شہدا اکاؤنٹ میں ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔
بہبود سیونگ سرٹیفکیٹس میں بھی ڈیپازٹ کی حد 50 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے کی جارہی ہے۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کے مشکل فیصلوں کی وجہ سے ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر میں گرواٹ کو کم کیا گیا ہے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائزے کی تمام شرائط کو پورا کر لیا ہے، باقاعدگی سے مذاکرات جاری ہیں، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ جلد ایس ایل اے پر دستخط ہوں اور نواں جائزہ مکمل ہوجائے۔