اسلام آباد( اردو ٹائمز)مذہبی منافرت کے خلاف اقوام متحدہ میں پاکستان کی قرارداد منظور
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان کی جانب سے سویڈن میں قرآن پاک کو جلائے جانے کے تناظر میں مذہبی منافرت کے خلاف پیش کی گئی قرارداد منظوری کرلی گئی۔
گزشتہ ماہ سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی تھی اور پاکستان، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، یورپی یونین، پوپ فرانسس اور سویڈش حکومت سمیت کئی مسلم ممالک کی جانب سے اس واقعے کی شدید مذمت کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی جانب سے پاکستان کی پیش کی گئی قرارداد میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ سے مذہبی منافرت پر رپورٹ شائع کرنے اور ریاستوں سے اپنے قوانین پر نظرثانی کرکے اس خلا کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو اس طرح کے واقعات کی روک تھام، ایسی کارروائیوں اور مذہبی منافرت کی وکالت کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں رکاوٹ بنتا ہے۔
امریکا اور یورپی یونین نے اس قرارداد کی شدید مخالفت کی اور کہا کہ یہ انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بارے میں ان ممالک کے نظریات سے متصادم ہے۔
سویڈن جانے والے عراقی تارک وطن کی جانب سے اسٹاک ہوم کی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی پر مسلم ریاستوں نے کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی حقوق کونسل میں آج پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ کا نتیجہ مغربی ممالک کے لیے بڑی شکست کی نشان دہی کرتا ہے جبکہ او آئی سی دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قائم حکومتوں پر مشتمل یو این کونسل میں بے مثال اثر و رسوخ رکھتی ہے۔
28 ممالک نے پاکستان کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، 12 نے اس کی مخالفت کی جبکہ 7 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا، اس قرارداد کی منظوری کے بعد بعض ممالک کے نمائندوں نے تالیاں بجائیں۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا کی مستقل نمائندہ نے کہا کہ اس اقدام کے بارے میں امریکا کے خدشات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ مجھے یقین ہے کہ مزید وقت لے کر اور کھلی بحث کے ساتھ ہم اس قرارداد پر مل کر آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کر سکتے تھے۔
جنیوا میں قائم یونیورسل رائٹس گروپ کے ڈائریکٹر مارک لیمن نے کہا کہ ووٹنگ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک انسانی حقوق کونسل میں مکمل پسپا ہیں، وہ تیزی سے حمایت کھو رہے ہیں اور دلائل سے محروم ہو رہے ہیں۔
ووٹنگ کے بعد جنیوا میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے خلیل ہاشمی نے مغربی ممالک پر الزام لگایا کہ وہ مذہبی منافرت روکنے کے عزم کے لیے لیے زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں اس فعل کی مذمت کرنے کے لیے سیاسی، قانونی اور اخلاقی جرأت کا فقدان ہے اور یہ کم از کم اقدام تھا جس کے کرنے کی یہ کونسل ان سے توقع کر سکتی تھی۔
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف 7 جولائی کو یوم تقدس قرآن منانے کا اعلان کرتے ہوئے قوم سے ملک گیر احتجاج کی اپیل کی تھی۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پوری مسلم امہ سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کی بھرپور مذمت کرتی ہے، پاکستانی حکومت اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے فیصلے کی تائید کرتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا ہے پوری مسلم امہ، پاکستانی قوم اس کی بھرپور شدت سے مذمت کرتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ مجرموں کے خلاف فوری طور پر کارروائی کی جائے۔
وزیراعظم نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے یہ پہلا واقعہ نہیں ہے، اس سے قبل بھی ایسے دلخراش واقعات پیش آچکے ہیں اور اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سویڈن میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا جو بیانیہ بنایا گیا ہے اس کی پاکستانی حکومت نہ صرف بھرپور مذمت کر رہی ہے بلکہ سویڈن کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے وہ ان واقعات کا بھرپور نوٹس لے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مجھے اس بات کا بڑا اطمینان ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم نے اس پر ہنگامی اجلاس طلب کیا اور اس اجلاس میں اس حرکت کی بھرپور مذمت کی گئی بلکہ مطالبہ کیا گیا کہ نہ صرف مجرموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت، او آئی سی کے اس فیصلے اور اجلاس کی بھرپور تائید کرتی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اس طرح کا واقعہ نہیں ہوگا اور سویڈن کی حکومت سے ہمارا یہ مطالبہ جائز ہے اور ہم اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے اس کا بھرپور فالو اَپ کریں گے۔
او آئی سی نے اس سے قبل ہنگامی اجلاس بلایا تھا اور کہا تھا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے اور سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کے بعد مذہبی منافرت روکنے کے لیے بین الاقوامی قانون کا استعمال کیا جانا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے کہا تھا کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف پاکستان کی درخواست پر ہنگامی اجلاس ہوگا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کی طرف سے ایسی پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب عیدالاضحیٰ کے موقع پر سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں ایک شخص نے مسجد کے باہر مسلمان کمیونٹی کے سامنے قرآن پاک کی بے حرمتی کرتے ہوئے مقدس اوراق نذر آتش کیے تھے۔ سویڈن میں پیش آنے والے اس واقعے پر متعدد ممالک بشمول پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عرب، مراکش، عراق اور ایران کی طرف سخت تنقید کی گئی تھی۔ جنیوا میں قائم اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل پاکستان کی درخواست پر فوری بحث کے لیے اپنا ایجنڈا تبدیل کیا,کونسل کی طرف سے یہ فوری اجلاس پاکستان کی درخواست پر طلب کیا گیا جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کے کئی ارکان بشمول انسانی حقوق کونسل کے ارکان کی جانب سے بھیجی گئی تھی۔دوسری جانب پاکستان میں واقع سویڈن ایمبیسی کی جانب سے ٹویٹر اکاؤنٹ پر بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ سویڈن اسلامی فوبیا کو سختی سے رد کرتا ہے۔ بیان کو دہراتے ہوئے . سویڈن ایمبیسی نے کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی انفرادی واقعہ ہے، جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے پہلے سویڈن کے وزیر اعظم کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کو نامناسب کہا گیا تھا۔واضح رہے کہ دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سویڈن میں قرآن نذر آتش کیے جانے کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں کہا کہ قرآن پاک کی بے حرمتی مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے مترادف اور مسلمانوں کے ایمان پر حملہ ہے۔ان خیالات کا اظہاروزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کیا جہاں سویڈن میں قرآن پاک نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعے کے تناظر میں ہونے والی ہنگامی بحث میں آن لائن خطاب کر رہے تھے۔28 جون کو سویڈن کے دارالحکومت کی مرکزی مسجد کے باہر قرآن پاک کو نذر آتش کیا گیا تھا جس پر پوری مسلم دنیا سراپا احتجاج ہے اور تمام ممالک کی حکومتوں نے اس سلسلے میں سویڈن کی حکومت سے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے مذہبی منافرت پر مبنی اقدامات کے حوالے سے انسانی حقوق کونسل میں جاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس بحث کے فوری انعقاد پر انسانی حقوق کونسل کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ 3 ماہ قبل، ہم نے اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے پہلا دن منایا اور اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ کی حیثٰت سے ہمیں اس کی مشترکہ سربراہی کا اعزاز حاصل ہوا جہاں ہم سب نے متفقہ طور پر اسلامو فوبیا کے خلاف ایک آواز ہو کر بات کی۔ اس موقع پروزیر خارجہ نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی منظوری کے بعد کیے گئے قرآن پاک کے مقدس اوراق کی بے حرمتی جیسے اقدامات زیادہ سے زیادہ اشتعال دلانے کے لیے انجام دیے جاتے ہیں اور ہمیں واضح طور پر یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ سب مذہبی منافرت پر اکسانے، امتیازی سلوک اور تشدد کو ہوا دینے کی کوشش ہے اور ہم سب کو مل کر اس کی مذمت کرنی چاہیے اور نفرت کو فروغ دینے والے ایسے عناصر کو الگ تھلگ کر دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ قرآن پاک 2 ارب مسلمانوں کے لیے ایک روحانی تسکین کا سبب ہے، یہ ان کی شناخت اور وقار سے ہرگز الگ نہیں ہے قرآن کی بے حرمتی جیسے اس عمل سے مسلمانوں کو جو گہرا نقصان پہنچا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے، یہ ان کے ایمان پر حملہ ہے۔ وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ میں اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے آزادی اظہار کے بنیادی حق کو ہرگز رد نہیں کر رہا، آزادی اظہار اتنا ہی ناگزیر ہے جتنی خطرناک نفرت انگیز تقاریر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کرہ ارض پر ایک بھی مسلمان ملک ایسا نہیں ہے جو دوسرے مذاہب کے مقدس اوراق اور کتابوں کی بے حرمتی کی اجازت دیتا ہو، ایسا عمل کسی بھی مسلمان کے لیے ناقابل تصور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ثقافت، عقیدے اور قانون میں بھی ممنوع ہے لہٰذا اسی جذبے سے سرشار ہو کر میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں جو اہل ایمان کے خلاف اشتعال انگیزی اور دشمنی کی روک تھام، اس کی قانونی روک تھام اور ان سے جواب دہی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب کو نفرت، امتیازی سلوک، عدم برداشت کے خلاف متحد ہو کر باہمی احترام، افہام و تفہیم اور رواداری کے لیے راستے بنانا ہوں گے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ نفرت انگیز تقاریر ہر جگہ بڑھ رہی ہے، اسی سلسلے میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے قرآن کو نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعات کے تدارک کے لیے ایک فوری بحث کا انعقاد کیا۔اس سے قبل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات اشتعال انگیزی اور معاشرے کے مختلف برادریوں اور طبقات کو تقسیم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ پاکستان اور دیگر اقوام نے اجلاس میں مذہبی منافرت پر مبنی ایسے سوچے سمجھے اقدامات میں خطرناک حد تک اضافے کے بارے میں بات کرنے کا مطالبہ کیا جو بعض یورپی اور دیگر ممالک میں قرآن پاک کی بار بار بے حرمتی کی شکل میں منظر عام پر آتے ہیں۔وولکر ترک نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ قرآن مجید نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعات توہین اور اشتعال انگیزی، لوگوں کے درمیان تفریق، انہیں مشتعل اور اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے تشدد میں تبدیل کرنے کے لیے انجام دیے گئے ہیں۔ قانون یا ذاتی اعتقاد سے قطع نظر لوگوں کو دوسروں کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کہنا تھا کہ مسلمانوں کے خلاف تقریر اور اشتعال انگیز کارروائیاں، اسلامو فوبیا، یہودی دشمنی پر مبنی اقدامات اور عیسائیوں کو نشانہ بنانے والے اقدامات اور تقاریر یا اقلیتی گروہوں جیسے احمدیوں، بہائیوں یا یزیدیوں کی تضحیک پر مبنی اقدامات جارحانہ، غیر ذمہ دارانہ اور غلط ہیں۔ نفرت انگیز تقاریر کا مقابلہ مکالمے، تعلیم، بیداری اور بین المذاہب ہم آہنگی سے کرنے کی ضرورت ہے۔
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں عیدالاضحیٰ کے پہلے روز چند برس قبل عراق سے سویڈن منتقل ہونے والے شہری نے قرآن پاک کی بے حرمتی اور اوراق جلانے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سمیت دنیا بھر سے مذمت کا اظہار کیا گیا تھا۔
ملزم پر سویڈن کی پولیس نے نسلی فسادات پر اکسانے اور آگ لگانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ واقعے کے بعد پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عرب، مراکش، عراق اور ایران کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی۔ جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل میں ہر سال تین باقاعدہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اس وقت دوسرا اجلاس جاری ہے
سویڈن کی حکومت نے قرآن پاک نذر آتش کیے جانے کے واقعے کو اسلاموفوبیا قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ سویڈن میں اظہار رائے اور مظاہرے کی آزادی کا آئینی طور پر حق حاصل ہے,دھر سعودی عرب، مراکش اور ترکیہ نے بھی قرآن پاک کے اوراق نذر آتش کرنے کے اس گھناؤنے اور اشتعال انگیزی پر مبنی فعل کی شدید مذمت کی ہے۔سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں مختلف ممالک سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی اور بے حرمتی کرنے والے شخص کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے مقام پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے میں مختلف ممالک سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی اور بے حرمتی کرنے والے شخص کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف مانچسٹر میں بھی احتجاج کیا گیا۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ اظہار رائے اور احتجاج کی آزادی کے نام پر امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لیے اس طرح کی جان بوجھ کر اکسانے کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک پر فرض ہے کہ وہ مذہبی منافرت پر مبنی ایسے واقعات کو روکیں جو تشدد بھڑکانے کا باعث بنتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں پچھلے چند مہینوں کے دوران اس طرح کے اسلامو فوبک واقعات اس قانونی فریم ورک پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں جو نفرت پر مبنی ایسی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ آزادی اظہار رائے کا حق کسی کو بھی نفرت کو ہوا دینے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا ہے۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ واقعے پر پاکستان کے تحفظات سوئیڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں۔دفتر خارجہ نے بین الاقوامی برادری اور قومی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ زینوفوبیا، اسلاموفوبیا اور مسلم مخالف نفرت کے بڑھتے ہوئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں۔سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں عیدالاضحیٰ کے پہلے روز چند برس قبل عراق سے سویڈن منتقل ہونے والے شہری نے قرآن پاک کی بے حرمتی اور اوراق جلانے کی کوشش کی تھی، جس کے بعد پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سمیت دنیا بھر سے مذمت کا اظہار کیا گیا تھا۔ ملزم پر سویڈن کی پولیس نے نسلی فسادات پر اکسانے اور آگ لگانے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ واقعے کے بعد پاکستان، ترکیہ، اردن، فلسطین، سعودی عرب، مراکش، عراق اور ایران کی جانب سے شدید مذمت کی گئی تھی۔ جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل میں ہر سال تین باقاعدہ اجلاس منعقد ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا اس وقت دوسرا اجلاس جاری ہے جو جمعے تک جاری رہے گا۔وزارت خارجہ نے ایک بیان میں واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بار بار کی جانے والی نفرت انگیزی پر مبنی ان کارروائیوں کے لیے کوئی بھی جواز قابل قبول نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نفرت اور نسل پرستی کو ہوا کے مترادف ہے اور رواداری، اعتدال پسندی کی اقدار کو پھیلانے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کے براہ راست متصادم ہیں۔انہوں نے باور کرایا کہ اس طرح کے واقعات ریاستوں اور افراد کے درمیان تعلقات کے لیے ضروری تصور کیے جانے والے باہمی احترام کو سبوتاژ کرتے ہیں۔
اس سال کے اوائل میں ڈنمارک کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسٹرام کرس کے رہنما پالوڈن نے جمعے کے روز ڈنمارک کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کا نسخہ نذر آتش کر دیا تھا جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے 21 جنوری کو بھی اسی طرح کی بے حرمتی کرتے ہوئے سوئیڈن میں ترک سفارت خانے کے سامنے اسلام اور امیگریشن مخالف مظاہرے کے دوران قرآن پاک کے ایک نسخے کو نذر آتش کردیا تھا۔ واقعے کے بعد مراکش نے احتجاجاً اپنے سفیر کو سوئیڈن سے غیرمعینہ مدت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔ اس کے علاوہ مراکش کی وزارت خارجہ نے رباط میں سوئیڈن کے ناظم الامور کو طلب کر کے واقعے پر شدید احتجاج کیا اور اس طرح کے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیا۔ئی سال پہلے عراق سے فرار ہو کر سوئیڈن آنے والے 37 سالہ سلوان مومیکا نے بدھ کے روز پولیس سے ’قرآن کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے‘ کے لیے اس فعل کے ارتکاب کی اجازت طلب کی تھی۔احتجاج سے قبل سلوان مومیکا نے نیوز ایجنسی ٹی ٹی کو بتایا کہ وہ آزادی اظہار کی اہمیت کو بھی اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت ہے، اگر وہ ہمیں بتائیں کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔
دوسری جانب ترکیہ کے وزیر خارجہ نے سوئیڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’گھناؤنا‘ اور ’قابل نفرت‘ فعل قرار دیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ عید الاضحی ٰ کے پہلے روز قرآن پاک کی بے حرمتی کے اس گھناؤنی فعل پر لعنت بھیجتا ہوں، آزادیِ اظہار رائے کے نام پر ایسے اسلام مخالف اقدامات کی بالکل ناقابلِ قبول ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے کاموں سے آنکھیں بند کرنے کا مطلب شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔سویڈن کی حکومت نے قرآن پاک نذر آتش کیے جانے کے واقعے کو اسلاموفوبیا قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ سویڈن میں اظہار رائے اور مظاہرے کی آزادی کا آئینی طور پر حق حاصل ہے۔