اسلام آباد(اردو ٹائمز) سینیٹ اجلاس : انسداد پرتشدد انتہاپسندی کا بل منظور نہ ہو سکا
سینیٹ میں پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کا بل منظور نہ ہو سکا ،چیئرمین سینیٹ نے مختلف سینیٹرز کی مخالفت کے بعد بل کو ڈراپ کرنے کا اعلان کردیا۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل وزیر مملکت شہادت اعوان نے پیش کیا، اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کرنے پر احتجاج کیا گیا۔چیئرمین سینیٹ نے مجوزہ بل پر ایوان سے رائے مانگی۔
سینیٹ اجلاس کے دوران مختلف سینیٹرز کی جانب سے بل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ بل جمہوریت کیخلاف ہے اور جمہوریت کے تابوت میں آخری ثابت ہو گا ۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد اور جمعیت علما اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے بل کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ بل صرف تحریک انصاف کے خلاف نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کیخلاف ہے اور یہ تمام سیاسی جماعتوں کے گلے کا پھندہ بنے گا ۔
بل کے متن کے مطابق پرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال اور تشدد ہے، اس کے علاوہ اس میں فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہو، پرتشدد انتہا پسندی میں شامل کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا یا تشدد اور دشمنی کیلئے اکسانا بھی شامل ہے۔
مجوزہ بل کے مطابق شیڈول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پرتشدد انتہاپسندی ہے، پرتشد انتہاپسندی کی تعریف کرنا اور اس کیلئے معلومات پھیلانا بھی پرتشدد انتہاپسندی میں شامل ہے۔حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پرتشدد انتہاپسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے۔
لسٹ ون میں وہ تنظیم ہوگی جو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، جس کا سربراہ پرتشدد ہو، اس لسٹ میں نام بدل کر دوبارہ منظرعام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔
بل کے مطابق لسٹ ٹو میں ایسے افراد شامل ہیں جو پرتشدد انتہاپسندی میں ملوث ہوں، لسٹ 2 میں پرتشدد ادارے، لیڈر یا پرتشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے، حکومت پرتشدد فرد اور پرتشدد تنظیم کی میڈیا تک رسائی یا اشاعت پر پابندی لگائے گی۔
بل میں کہا گیا کہ پرتشد فرد یا تنظیم کے لیڈر یا فرد کی پاکستان میں نقل وحرکت یا باہر جانے پر پابندی ہوگی، اس کے علاوہ حکومت پرتشدد تنظیم کے اثاثے کی چھان بین کرے گی۔
بل میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ حکومت پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداروں اور ممبران کی سرگرمیاں مانیٹر کرے گی، پرتشدد تنظیم کے لیڈر،عہدیداروں، ممبران کا پاسپورٹ ضبط ہوگا اور بیرون ملک سفر کی اجازت نہ ہوگی۔
بل کے متن کے مطابق پرتشدد تنظیم کے لیڈر، عہدیداران اور ممبران کا اسلحہ لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا، اثاثے، پراپرٹی اور بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیئے جائیں گے، اس کے علاوہ پرتشدد تنظیم کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی اور کوئی مالیاتی ادارہ پرتشدد تنظیم کے لیڈر، ممبر یا عہدیدار کو مالی معاونت نہیں دے گا۔بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لسٹ میں شامل شخص کو 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا۔
بل کے متن کے مطابق تعلیمی ادارے کسی شخص کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا اس کا پرچار کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اس کے علاوہ کوئی سرکاری ملازم نہ خود نہ اہلخانہ کو پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔
پرتشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری اتار دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا، قابل سزا جرم سیشن کورٹ کے ذریعے قابل سماعت ہوگا، جرم ناقابل ضمانت، قابل ادراک cognizable اور non compoundable ہوگا۔بل میں کہا گیا کہ معاملہ کی پولیس یا کوئی اور ادارہ تحقیقات اور انکوائری کرے گا۔
پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو 3 سے 10سال تک سزا اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والے شخص کو ایک سے 5 سال تک قید اور10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا۔
پرتشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، تنظیم تحلیل کر دی جائے گی، قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لئے جائیں گے۔معاونت یا سازش یا اکسانے والے شخص کو بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا، حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا، حکومت لسٹ میں شامل شخص یا تنظیم کے لیڈر اور ممبران کو گرفتار کر کے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتی ہے، مدت میں 12 ماہ تک توسیع ہو سکتی ہے، متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا