مبینہ آڈیو لیکس کیس، عدالت نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاری نوٹس معطل کر دیا
مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاری نوٹس معطل کر دیا اور پارلیمانی کمیٹی کو کارروائی سے روک دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق مبینہ آڈیو لیکس کے لیے قائم کمیٹی کیخلاف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی جانب سے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی جس میں عدالت نے درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ اور شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس بابر ستار نے سماعت کی۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو جاری نوٹس معطل کرتے ہوئے پارلیمانی کمیٹی کو بھی ان کے خلاف کارروائی سے روک دیا ہے۔ عدالت نے یہ نوٹس سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی حد تک معطل کیا ہے۔
عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا اور سماعت 19 جون تک کے لیے ملتوی کر دی۔
اس سے قبل جب سماعت شروع ہوئی تو درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ 2 مئی کو اسپیکر قومی اسمبلی نے مبینہ آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلیے کمیٹی قائم کی، اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی غیر قانونی ہے، انہیں ایسا کرنے کا اختیار بھی نہیں۔
وکیل نے درخواست گزار کا موقف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 25 مئی کو سیکریٹری اسمبلی کی جانب سے ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں میرے والد کو ذاتی حیثیت میں کمیٹی کے روبرو پیش ہونے کا کہا گیا کمیٹی کا اجلاس ہوئے بغیر ہی طلبی کا نوٹس بھیجا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ اسپیکر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو غیر قانونی قرار دیا جائے اور آپریشنز کو بھی معطل کیا جائے، اس کے علاوہ درخواست پر فیصلہ ہونے تک کمیٹی کو ثاقب نثار کیخلاف کسی بھی ایکشن سے روکا جائے۔
اس موقع پر جسٹس بابر ستار نے درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ سے استفسار کیا کہ آپ سابق گورنر بھی رہے ہیں اور قانون دان بھی ہیں تو بتائیں کہ یہ ریکارڈنگ کون کرتا ہے؟
لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ درخواست میں جو فریقین ہیں ان کے جواب آنے دیں پھر سب کلیئر ہو جائے گا۔
جسٹس بابر ستار نے لطیف کھوسہ کو مخاطب کرتے ہوئے پھر استفسار کیا کہ آپ نے پارلیمانی افیئرز کو فریق نہیں بنایا ہے جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں نے وفاق کو فریق بنایا ہے جس میں پارلیمانی افیئرز بھی آتے ہیں۔