سال 2023 میں دہشت گردعسکریت پسندوں کے حملوں میں تشویشناک اضافہ
.افواج پاکستان اور عوام میں محبت کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ملک و قوم کے کل کے لیے قربان کرنے والے پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے افسراور اہلکار پوری قوم کے ہیرو ہیں اور قوم کو شہداء کی لازوال قربانیوں پر ناز ہے،بلکہ دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے تمام سویلین بھی پاکستان کے ہیرو ہیں، ان تمام شہداء کی عظیم قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج نے لازوال قربانیاں دے کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔
پاک فوج کے سپہ سالار سید عاصم منیر کا بھی کہنا ہے کہ دشمن عوام اور مسلح افواج کے درمیان دراڑ ڈالنے کی سازشوں میں سرگرم ہے، ظاہری و چھپے دشمن کو پہچاننا، حقیقت اور ابہام میں واضح فرق رکھنا ہوگا۔دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی ملک میں کوئی جگہ نہیں، مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے بغیر علاقائی امن مبہم رہے گا، افغانستان میں استحکام ہماری سلامتی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یاد رہےکہ ان خیالات کا اظہار سپہ سالار سید عاصم منیر نے پی ایم اے کاکول میں پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیاتھا, بلاشبہ سپہ سالار پاک فوج نے جن صائب خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ مدلل، واضح ، دوٹوک ، مدبرانہ سوچ اور فہم و فراست کے حامل ہیں۔ درحقیقت اپنا آج ملک و قوم کے کل کے لیے قربان کرنے والے پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کے افسراور اہلکار پوری قوم کے ہیرو ہیں اور قوم کو شہداء کی لازوال قربانیوں پر ناز ہے،سپہ سالار سید عاصم منیر نے مزید کہا کہ عوام اور فوج کے باہمی رشتے کو قائم و دائم رکھا جائے گا۔ بلاشبہ افواج پاکستان سے محبت دراصل پاکستان سے محبت ہے اور چونکہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بہت بڑی نعمت ہے، اس لیے اس کی سرحدوں کی حفاظت صرف پیشہ ورانہ تقاضا ہی نہیں بلکہ دینی اور قومی فریضہ بھی ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جاگنا، نقل و حرکت کرنا اور تربیت حاصل کرنا ایسے افعال عبادت میں شمار ہوتے ہیں۔ جب بھی ملک پر کوئی قدرتی آفت آتی ہے خواہ وہ زلزلے کی شکل میں ہو یا شدید طوفانی بارشیں یا سیلاب ہو، افواجِ پاکستان کے جوان اور افسران عوام کی مدد کو آتے ہیں اور ان کی جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ملک کے مختلف علاقوں میں امن و امان کی بحالی، بھتہ خوروں، دہشت گردوں اور دیگر ملک دشمن عناصر سے نمٹنے کے لیے افواج پاکستان ملک کے دیگر سول اداروں کے ساتھ مل کر شاندار خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں اور اہلکاروں نے دہشت گردعسکریت پسندوں اور جرائم پیشہ مافیا کے خلاف اہم ترین کردار ادا کیا ہے اور یہ کردار دہشت گردوں کے سہولت کاروں، ہنڈلرز اور فنانسر کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹک رہا ہے۔
افواج پاکستان اپنے ملک کے علاوہ دُنیا کے متعدد ممالک میں امن کے قیام کے لیے بھی شاندار خدمات سر انجام دے چکی ہیں اور اب بھی دے رہی ہیں۔ بوسنیا کے عوام افواج پاکستان کی خدمات کو کبھی بھی نہیں بھول سکتے۔سری لنکا میں دہشت گردی کا خاتمہ اس لیے ممکن ہوا کہ سری لنکن افواج نے پاک فوج سے تربیت حاصل کی تھی جس نے سری لنکن افواج کو دہشت گردوں کی بیخ کنی کے قابل بنایا۔
پاکستانی افواج کے تربیتی اداروں میں اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے کیڈٹ اور افسران زیرِ تربیت پاکستانی افواج کی اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارت، قابلیت، صلاحیت، ہمت اور جوانمردی کے کھلے دل سے معترف ہیں اور انھیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ پاکستانی افواج سے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار پاک دھرتی کا ناسور ہیں تاہم پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سب نے مل کر اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے جب کہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج ہر قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی فورسز کی کارکردگی مزید بہتر بنانے کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تدارک دہشت گردی کے ادارے نہ تو اچھی طرح سے مسلح ہیں اور نہ ہی جدید تربیت یافتہ ہیں، خصوصاً خیبر پختونخوا میں صوبائی سیکیورٹی اداروں کے جوانوں کو ذہنی طور پر مضبوط ہونا انتہائی ضروری ہے،دہشت گردانہ حملے اس وجہ سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں اور انھوں نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بھی سخت موقف اپنایا ہوا ہے۔ شمال مغربی سرحدوں پرپاکستان کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔پاکستان کے شمال مغربی علاقے آئینی و قانونی ضابطوں کی وجہ سے ریاست کے سویلین اداروں کی رٹ سے باہر رہے ہیں،
ان علاقوں کے مراعات یافتہ طبقے اپنے علاقوں میں خود قانون سے بالاتر ہیں اب چونکہ فاٹا ریاستی قوانین کے تحت آگیا ہے تو طاقت ور طبقے اپنے اوپر قانون نافذ ہونے کے ظلم و زیادتی سمجھتے ہیں۔ ان علاقوں میں پولیس اور پیرا ملٹری فورس پر حملوں سے دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور انتہا پسندوں کو با آسانی کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔پاکستان میں پولیس فورس سیکیورٹی برقرار رکھنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد وقت کی ضرورت ہے ۔ پاکستانی علاقوں میں سول اداروں کی رٹ قائم کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور فنانسرز کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحدکو فول پروف نہیں بنایا جاتا۔اس طرح پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں آسانی و تیزی آئے گی اور اہداف بھی سو فیصد تک حاصل ہوں گے۔ دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، کالعدم تنظیموں اور جرائم پیشہ عناصر کے درمیان گٹھ جوڑ کو توڑنا تدارکِ دہشت گردی کا ایجنڈا ہے۔ نیکٹا کا مقصد جامع پالیسی نقطہ نظر اور اسٹرٹیجک مواصلات کے ذریعے پیش بندی کر کے دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہے۔ دہشت گردوں کو پاکستان کی سماجی، معاشی اور سیاسی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لیے پیشگی وارننگ میکانزم تیار کرنے اور معقول ادارہ جاتی ہم آہنگی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔آج پاکستان پر دشمن فوج حملہ آور نہیں، نہ ہی ہمارے دیرینہ دشمن بھارت کے پاس حوصلہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح پاکستان کے خلاف جارحیت کا حوصلہ کرے لیکن ملک کے اندر سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا مہم کا سلسلہ جاری ہے وہ سرحدوں پر دشمن کی یلغار سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ملک کے اندر عوام کو اپنی ہی فوج کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے۔ فوج کو بطور ادارہ ایسے القابات سے نوازا جارہا ہے جو آج تک بھارت جیسے دشمن ملک نہ بھی استعمال نہیں کیے۔ پہلے اس طرح کا پروپیگنڈا ملک کے اندر مخصوص نظریات کے حامل قوم پرست کیا کرتے تھے جو دو قومی نظریہ کی مخالفت میں اپنی تان پاک فوج پر الزامات کی صورت توڑتے تھے ۔ ان میں قومی سطح کی سیاسی جماعتوں سے وابستہ کچھ لیڈران بھی شامل رہے جو اقتدار سے باہر ہونے کی وجہ اوراپنی بدعنوانیوں پر قانون کی پکڑ کو سیاسی انتقام کا رنگ دے کر پاک فوج کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ربے اس سلسلے میں پاک فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جو کام ملک کے ابدی دشمن پجھتر سال نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دکھایا ہے ۔9 مئی کا دن سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کو نیب کے اعلامیے کے مطابق قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا – اس گرفتاری کے فوراً بعد ایک منظم طریقے سےآرمی کی املاک اور تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور فوج مخالف نعرے بازی کروائی گئی۔ ایک طرف تو یہ شر پسند عناصر عوامی جزبات کو اپنے محدود اور خود غرض مقاصد کی تکمیل کیلئے بھرپور طور پر ابھارتے ہیں اور دوسری طرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈالتے ہوئے ملک کیلئے فوج کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتے نہیں تھکتے جو کہ دوغلے پن کی مثال ہے۔جو کام ملک کے ابدی دشمن پجھتر سال نہ کرسکے وہ اقتدار کی حوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے ہوئے اس گروہ نے کر دیکھایا ہے ۔ فوج نے انتہائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور اپنی ساکھ کی بھی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائ صبر اور برداشت سے کام لیا ۔ مذموم منصوبہ بندی کےتحت پیدا کی گئی اِس صورتحال سے یہ گھناونی کوشش کی گئی کہ آرمی اپنا فوری ردِ عمل دے جسکو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکے- آرمی کے میچور رسپانس نے اس سازش کو ناکام بنا دیا- ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ اس کے پیچھے پارٹی کی کچھ شر پسند لیڈرشپ کے احکامات، ہدایات اور مکمل پیشگی منصوبہ بندی تھی اور ہے۔ جو سہولت کار ،منصوبہ ساز اورسیاسی بلوائی ان کاروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی کی جائے گی اور یہ تمام شر پسند عناصر اب نتائج کے خود ذمہ دار ہونگے۔ فوج بشمول تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوجی و ریاستی تنصیبات اور املاک پر کسی بھی مزید حملے کی صورت میں شدید ردعمل دیا جائے گا جسکی مکمل ذمہ داری اسی ٹولے پر ہوگی جو پاکستان کو خانہ جنگی میں دھکیلنا چاہتا ہے اور برملہ و متعدد بار اس کا اظہار بھی کرچکا ہے۔کسی کو بھی عوام کو اکسانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی,۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی اورسیاسی انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پوری قوم یکسو ہو کر پاک افواج کے ساتھ کھڑی ہو,رواں سال میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشت گردی کے 436 واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 293 افراد شہید جبکہ 521 زخمی ہوئے۔خیبرپختونخوا میں 219 واقعات میں 192 افراد شہید جبکہ 330 زخمی ہوئے، بلوچستان میں 206 واقعات میں 80 افراد شہید جبکہ 170 زخمی ہوئے، پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 14 افراد شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ رواں سال سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 8 ہزار 269 چھوٹے بڑے خفیہ اطلاع پر آپریشنز کیے ہیں، اسی دوران لگ بھگ 1535 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا ہے۔ خیبرپختونخوا میں 3591 آپریشنز کیے گئے اور 581 دہشت گردوں کو گرفتار اور 129 کو واصل جہنم کیا گیا، بلوچستان میں 4 ہزار 40 آپریشنز کے دوران 129 دہشت گردوں کو گرفتار اور 25 کو جہنم رسید کیا گیا، پنجاب میں 119 آپریشنز کیے گئے اور سندھ میں 519 آپریشنز کے دوران 398 دہشت گردوں کو گرفتار جبکہ 3 کو جہنم رسید کیا گیا۔ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آج الحمد اللہ عوام اور افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان میں کوئی ’نو گو ایریا‘ نہیں ہے، البتہ مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی کچھ تشکیل سرگرم عمل ہیں، جن کی روزانہ کی بنیاد پر سرکوبی کی جا رہی ہے۔ میجر جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ مغربی سرحدوں پر پچھلے چند ماہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گرد امن و عامہ کو خراب کرنے کی بے حد کوششیں کرتے رہے، مگر فورسز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے ہم مکمل طور پر فوکسڈ ہیں، اس حوالے سے پاکستان کی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیاں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی فورسز نے شاندار اقدامات کیے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو کیفرکردار تک پہنچانے میں شب و روز اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سال 2023 کے پانچ ماہ میں دہشت گردعسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ تسویس ناک حقیقت ہےابتدائی پانچ ماہ میں 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 77 فیصد، اموات میں 39 فیصد اور زخمیوں میں 33 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 2023 کے ابتدائی پانچ ماہ میں 224 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 357 افراد جاں بحق اور 615 زخمی ہوئے 2023 میں 40 عسکریت پسند حملے رپورٹ کیے جن میں 48 افراد جاں بحق اور 102 افراد زخمی ہوئے، جس میں سے نصف اموات (24) اور نصف سے زیادہ زخمیوں کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مئی میں ملک میں عسکریت پسندوں کے حملوں اور ان کے نتیجے میں انسانی ضیاع کی تعداد میں معمولی کمی دیکھی گئی۔ رپورٹ کے مطابق البتہ رپورٹ میں نقل کیے گئے عسکریت پسندی ڈیٹابیس نے ظاہر کیا کہ رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں تشدد کی سطح گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے رواں ماہ کے دوران بھی عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں اور کم از کم 64 عسکریت پسندوں کو ہلاک اور 39 کو گرفتار کیا۔پی آئی سی ایس ایس کے ڈیٹابیس سے پتا چلتا ہے کہ 2022 کے ابتدائی 5 ماہ میں عسکریت پسندوں کے 126 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 257 افراد جاں بحق اور 461 زخمی ہوئے۔ڈیٹابیس نے مئی 2023 میں 40 عسکریت پسند حملے رپورٹ کیے جن میں 48 افراد جاں بحق اور 102 افراد زخمی ہوئے، جس میں سے نصف اموات (24) اور نصف سے زیادہ زخمیوں کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا جبکہ بقیہ عام شہری تھے۔ 2023 کے ابتدائی پانچ ماہ میں 224 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 357 افراد جاں بحق اور 615 زخمی ہوئے۔
اس کا مطلب ہے کہ 2023 کے ابتدائی پانچ ماہ میں 2022 کے اسی عرصے کے مقابلے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں 77 فیصد، اموات میں 39 فیصد اور زخمیوں میں 33 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
مئی 2023 میں خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کو سب سے زیادہ عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑا جہاں 18 حملوں میں 18 افراد جاں بحق اور 27 زخمی ہوئے۔ صوبے کے باقی حصوں کو 10 حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں 16 افراد جاں بحق اور 54 زخمی ہوئے بلوچستان میں دہشت گردوں کے 10 حملے ہوئے جن میں 12 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے، سندھ کو دو حملوں کا سامنا کرنا پڑا جس میں 2 افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہوا۔ ڈیٹابیس میں مئی 2023 میں 4 خودکش حملے بھی ریکارڈ کیے گئے، لیکن ان میں انسانی جان کے ضیاع کی تعداد نسبتاً کم تھی، جس میں 8 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے۔