اسلام آباد (اردو ٹائمز) : معیشت بحالی کیلئے آرمی چیف کی شمولیت سے اپیکس کمیٹی متحرک و فعال
کامیاب فوجی سفارت کاری سے ماضی قریب میں پاکستان کے کئی عالمی تنازعا ت ومسائل حل ہوئےہیں۔
ملکی معیشت بحالی کیلئےآرمی چیف جنرل عاصم منیر کی شمولیت سے اپیکس کمیٹی متحرک و فعال ہوگئی ہے یاد رہےکہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ایپکس کمیٹی قائم کی ہے.جس میں آرمی چیف بھی شامل ہیں۔ اپیکس کمیٹی اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کروائے گی۔
حکومت نے معاشی بحالی کیلئے ایک بڑے منصوبے کا اعلان کیا ہےجسے سی پیک سے بھی بڑا اور دس سالہ منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایپکس کمیٹی کی سربراہی وزیر اعظم شہباز شریف کریں گے جبکہ آرمی چیف اور عسکری حکام بھی ایپکس کمیٹی میں شامل ہوں گے۔ ان کے علاوہ وزیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی، وزیر دفاع، وزیر دفاعی پیداوار، وفاقی وزیر فوڈ سیکورٹی، وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اور وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
میری رائے میں ایپکس کمیٹی اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوگی جب تک کہ اسے پاکستان کے سفارت خانوں سے منسلک نہیں کیا جاتا , اس ضمن میں پاکستان کے سفارت خانوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے تجارتی اور کامرس ڈیسک ہونا ضروری ہے۔
جیسا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو اس ایپکس کمیٹی میں شامل کیا جانا چاہیے تھا ہماری تجارتی سفارت کاری اس سلسلے میں سب سے زیادہ موثر ہو سکتی ہے۔ پانچ بڑے ممالک نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کردی ہے۔
سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور بحرین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ معاشی بحالی پر قائم ایپکس کمیٹی ملک میں بیرون سرمایہ کاری پر فریم ورک تیار کرے گی، ایپکس کمیٹی پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کے لیے سہولت کاری کرے گی۔یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں سے بین الاقوامی سفارت کاری میں ایک نئی طرز کی سفارت کاری کا اضافہ ہوا ہے جس کوفوجی سفارت کاری, دفاعی سفارت کاری یا عسکری سفارت کاری بھی کہا جاتا ہے۔
یہ خارجہ پالیسی کا ایک اہم جزو بن چکی ہے جس کی اہمیت دنیا بھر میں مسلمہ ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے مطابق اس سفارت کاری میں دوست ممالک کی افواج عسکری تعلقات بہتر بنانے کے لیے اہم اقدامات کرتی ہیں جن میں فوجی مشقوں کا انعقاد اور فوجی ساز وسامان کی خریدوفروخت کی جاتی ہے ۔
اس طرح ممالک کے درمیان جذبہ خیر سگالی کے تحت باہمی دفاعی تعاون کو فروغ دیا جاتا ہے۔ سفیر کا اولین فرض اپنے ملک کے مفادات کا ممکنہ حصول ہوتا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں تمام افسر بشمول فرسٹ سیکرٹری ,قونصلر ڈیفنس اتاشی ,ٹریڈ اتاشی ,انفارمیشن قونصلر سب سفیر کی معاونت کرتے ہیں۔
سفارت کار دو ملکوں کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ سفیر کا بنیادی کام اپنے میزبان ملک کے بارے میں رپورٹیں بھیجنا ہوتا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے کمیونیکیشن کے ذرائع میں انقلاب آیاہے۔ آج کے سفارت خانے تجارت کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں۔
سفارت خانے دوست ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے میں مشغول نظر آتے ہیں۔ میڈیا کے نمائندوں سے تعلقات استوار کر کے اپنے ملک کا امیج بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے کلچر کی تشہیر کے لئے فلم فیسٹیول اور میوزک کنسرٹ کراتے ہیں۔
سفارت کاری اور دفاع بظاہر بالکل مختلف پیشے نظر آتے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ دونوں اہم پیشے اس وقت وجود میں آئے جب اقوام کا تصور اجاگر ہوا۔
ان ریاستوں میں مسابقت کا عنصر لازمی امر تھا۔ لہٰذا جارحیت اور دفاع دونوں کا آغازہوا اور دفاع کے لئے منظم عسکری قوت لازمی ٹھہری۔ جنگوں کو روکنے کے لئے سفارت کاری کا استعمال ضروری تھا۔ کسی بڑی اور جارحانہ ریاست کا مقابلہ کرنے کے لئے دو یا زیادہ ملک دوستی کا معاہدہ کرتے تھے۔
ایک اور غلط تصور یہ بھی تھا کہ افواج کا کام صرف جنگ یا جنگ کی تیاری ہے۔ کامیاب فوجی سفارت کاری سے ماضی قریب میں پاکستان کے کئی عالمی تنازعا ت ومسائل حل ہوئےہیں۔
کسی بھی اہم ملک میں سفیر کا کام ہے کہ وہ دو طرفہ بات چیت کا لیول سٹریٹیجک ڈائیلاگ تک لے جائے۔ امریکہ اور یورپی یونین میں ہمارے سفیروں نے یہ ہدف حاصل کیا ہے۔ سول میں یہ کام فارن سروس سرانجام دیتی ہے۔
مسلح افواج کی جانب سےآرمی چیف, جائنٹ چیفس کمیٹی کے چیئرمین مختلف ممالک کا دورہ کر کے علاقائی اور بین الاقوامی صورت حال پر تبادلہ خیال کرتے ہیں اور دو طرفہ دفاع مضبوط کرنے کی بات کرتے ہیں۔
دفاعی طرز کی یہ اعلیٰ لیول کی ملاقاتیں بے حد مفید ہوتی ہیں اور ا گر اس ملک میں سفیر اور ڈیفنس اتاشی اچھے پروفیشنل افسر ہوں اور سفارت خانے نے اپنا ہوم ورک اچھا کیا ہو تو یہ ملاقاتیں مفید تر ہو جاتی ہیں۔
مشہور مقولہ ہے کہ اچھی عسکری تیاری امن کی بہترین ضمانت ہے اور اگر اچھی عسکری تیاری کے ساتھ اعلیٰ پائے کی سفارت کاری بھی میسر ہو تو دفاع اور بھی مضبوط ہو جاتاہے۔ اسی وجہ سے سفارت خانوں کو فرسٹ لائن آف ڈیفنس بھی کہا جاتا ہے۔
یہ بات بھی اب راز نہیں رہی کہ بعض اہم سفارت خانوں میں حساس اداروں کے لوگ بھی ہوتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے کام میں ماہر ہوں تو سفیر کی خاصی مدد ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب اچھے سفیر ان افسران کی رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔مشکل معاشی حالات کے باوجود وزیر اعظم پاکستان معاشی بحالی کیلئے پرعزم ہیں، اس سلسلے میں حکومت نے پاکستان کی معاشی بحالی کا قومی پلان تیار کیا ہے جس کے تحت غیرملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کے سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) قائم کر دی گئی ہے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ معاشی بحالی کی حکومت کے پلان پر عمل درآمد کی کوششوں کی پاکستان آرمی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اسے پاکستان کی سماجی و معاشی خوش حالی اور اقوام عالم میں اپنا جائز مقام واپس حاصل کرنے کی بنیاد سمجھتی ہے۔ وزیراعظم آفس کےاعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کونسل کا پہلا اجلاس منعقد ہوا جس میں چیف آف آرمی سٹاف، وزراء اعلی، وفاقی وصوبائی وزراء ، اعلی سرکاری حکام نے شرکت کی۔ حکومت نے اعلی سطح کے اجلاس میں پاکستان کی ‘معاشی بحالی’ کی جامع حکمت عملی جاری کر دی ہے۔ ‘اکنامک ریوائیول پلان’ کے عنوان سے تیار کردہ اس قومی حکمت عملی کا مقصد پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں غیرملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے قائم کردہ ‘سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل’ (ایس آئی ایف سی) کے پہلے اجلاس میں چیف آف آرمی سٹاف، وزرائے اعلیٰ، وفاقی اور صوبائی وزرا اور اعلی سرکاری حکامِ شریک ہوئے۔ منصوبے کے تحت زراعت، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں میں پاکستان کی اصل صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت ان شعبوں کے ذریعے پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی۔ منصوبے کے تحت ‘ایک حکومت’ اور ‘اجتماعی حکومت’ کے تصور کو فروغمخمھ دیا جائے گا تاکہ سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے لئے سپیشل انوسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) بنادی گئی ہے جو سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری میں سہولت کے لئے ‘سنگل ونڈو’ کی سہولت کا کردار ادا کرے گی۔ منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اشتراک عمل پیدا کیا جائے گا۔ طویل اور دقت کا باعث بننے والے دفتری طریقہ کار اور ضابطوں میں کمی لائی جائے گی۔ تعاون اور اشتراک عمل کا طریقہ کار اختیار کیا جائے گا۔ سرمایہ کاری اور منصوبوں سے متعلق بروقت فیصلہ سازی یقینی بنائی جائے گی جبکہ وقت کے واضح تعین کے ساتھ منصوبوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی لائی جائے گی تاکہ ایک ہی معاملے پر دوہری کوششوں کے رجحان کا خاتمہ ہو۔ وفاق اور صوبوں کی اعلی سطح شرکت تمام مشکلات کے باوجود معاشی بحالی کے قومی عزم کا واضح اظہار ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو ورثے میں تباہی کے دھانے پر کھڑی معیشت ملی جسے مشکل اور دلیرانہ فیصلوں کے ذریعے بحرانوں سے نکال کر تعمیر و ترقی کی طرف واپس لا رہے ہیں۔ ابھی بہت بڑے چیلنجز ہمارے سامنے ہیں۔ معاشی بحالی کے لئے برآمدات بڑھانے والی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ لہذا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اجتماعی سوچ اپناتے ہوئے موثر عمل درآمد کے لئے وفاق اور صوبوں میں شراکت داری کا انداز اپنایا جائے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں کو اولین ترجیح دی جائے گی اور اشتراک عمل کے ذریعے منصوبوں سے متعلق منظوری کا عمل تیز بنایا جائے گا۔ متوقع سرمایہ کاری سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ نوجوانوں اور خواتین کو روزگار ملے گا، ترقی کے نئے امکانات دیں گے۔ ہماری توجہ نوجوانوں اور خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور اظہار کے قابل بنانا ہے۔ انہیں با اختیار بنانا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آئیں مل کر اپنی بھرپور صلاحیتوں سے کام کرنے کا عزم کریں اور اپنی توجہ بھٹکنے نہ دیں۔ ہم پاکستان اور عوام کا مقدر بدل سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لئے ہمیں مسلسل اور سخت محنت کرنا ہوگی اور سمت برقرار رکھتے ہوئے ملک وقوم کو ترقی اور خوش حالی کے راستے پر گامزن رکھنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور اس کے عوام کا حق ہے کہ انہیں معاشی ترقی اور خوش حالی سے ہم کنار کیا جائے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ فرض سونپا ہے۔حکومت کا دعویٰ ہے کہ اقتصادی بحالی کا منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری سے بھی بڑا منصوبہ ثابت ہوگا۔علاوہ ازیں وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 1200 میگاواٹ کا چشمہ فائیو نیوکلیئر پاور پلانٹ معاہدہ پاک چین دوستی میں ایک اور سنگ میل ہے، مشکل معاشی حالات کے باوجود پاکستان معاشی بحالی کیلئے پرعزم ہے۔1200میگاواٹ کے چشمہ فائیو جوہری بجلی گھرکی تعمیر کی مفاہمتی یاداشت پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی ۔ اس تقریب میں وزیراعظم کی موجودگی میں چین کی نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے درمیان مفاہمت کی یاداشت پردستخط کئے گئے۔وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے اس موقع پرکہا کہ چین کی طرف سے سرمایہ کاری، جس کو پاکستان اپنا سب سے زیادہ قابل اعتماد اتحادی سمجھتا ہے، قابل ستائش عمل ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چشمہ فائیو نیوکلیئر پاور پلانٹ معاہدہ پاک چین دوستی میں ایک اور سنگ میل ہے، مشکل معاشی حالات کے باوجود پاکستان معاشی بحالی کےلئے پرعزم ہے۔ چین کی جانب سے3ارب 48کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری مثبت اقدام ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ”چین کی طرف سے 4.8 ڈالر کی سرمایہ کاری کا یہ منصوبہ واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے، جس پر چینی کمپنیاں اور سرمایہ کار اپنا اعتماد اور یقین رکھتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ تاخیر کا شکار ہونے پر چین نے ہماری مدد کی، جس کے لیے وہ صدر شی جن پنگ کے بہت ممنون و مشکور ہیں۔کیا معاشی بحالی ہی قوم کی خوشحالی کا باعث ہو سکتی ہے۔ کیا معاشی ترقی ہی کسی قوم کی خوشحالی کا باعث ہو سکتی ہے۔ ایک نئی تحقیق میں معاشرتی ترقی کے اس روایتی تصور پر سنجیدہ سوالات اٹھانے سے اقتصادی اور سماجی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔دنیا بھر کے مختلف ترقی یافتہ ممالک کے معاشروں میں قوم پرستی کو عروج حاصل ہو رہا ہے اور بعض پالیسی ساز حلقے بھی عالمگیریت اور کثیر النسلی کو اپنا ہدف بنانے سے گریز نہیں کر رہے۔ ایسی صورت حال میں خوشحالی کا اقتصادی ترقی کے ساتھ ربط و ملاپ ہیں۔ معاشرتی خوشحالی کو پائیدار ترقی اور ماحولیاتی استحکام کی بنیاد ہے۔