اسلام آباد(اردو ٹائمز) یوم استحصال; 5 اگست 2019 سے اب تک, بھارتی افواج کے ہاتھوں 780 سے زائد کشمیری شہید
.یوم استحصال 5 اگست 2019 مقبوضہ کشمیرکی تاریخ میں سیاہ ترین دن پرپاکستان اور دنیا بھر میں کشمیری یوم استحصال منارہے ہیں۔
یوم استحصال; 5 اگست 2019 کے دن بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے میں تبدیلی کی، بھارت نے ڈوگرا راج کی زیادتی آج تک جاری رکھی ہے، مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جارہا ہے، غیر کشمیری عوام کو لاکر کشمیر میں آباد کیا جارہا ہے۔
آج بھارت کے مقبوضہ کشمیرپرغاصبانہ قبضے کو 4 سال مکمل ہوگئے۔ 4سال کے ظلم و جبرکے باوجود ابھی تک بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ کشمیری ہزاروں جانیں قربان کرنے کے بعد بھی پرعزم ہیں اورہرقیمت پربھارت سے آزادی حاصل کرنے کیلئے تیارہیں۔بھارت کا مقبوضہ کشمیرمیں ظلم وستم بڑھتا جارہا ہے، بھارت نے پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔.وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہےکہ جموں وکشمیرکا تنازعہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر سب سے پرانا اور حل طلب مسئلہ ہے، بھارت کے 5 اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات سے کشمیر کے حالات بدترین رخ اختیار کرچکے ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 75 سال سے بھارت نے جموں وکشمیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں ہزاروں کشمیری شہید ہوچکے ہیں، بھارت کے5 اگست 2019 کے غیرقانونی اقدامات سے مقبوضہ کشمیر کے حالات بدترین رخ اختیار کرچکے ہیں، بھارت کے ان غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات کوپاکستان اورکشمیریوں نے مسترد کیا ہے۔
یوم استحصال کے پیغام میں وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستانی عوام کشمیریوں کی منصفانہ جدوجہد میں اپنی غیرمتزلزل حمایت کے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔
دفتر خارجہ پاکستان کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے اب تک قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں 780 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ پاکستان کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول تک بھارتی جبر کے خلاف ان کی منصفانہ جدوجہد میں حمایت جاری رکھے گا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے جاری بھارتی جبر کشمیری عوام کی خواہش کو توڑنے میں ناکام رہا ہے جو اپنے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہم ان شہدا کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے بہادری سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے ایک دلیرانہ جدوجہد کا آغاز کیا اور آزادی کی یہ تحریک آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈوگرہ افواج کی طرح گزشتہ ستر سالوں کے دوران بھارتی قابض افواج نے ہزاروں کشمیریوں کو محض اپنے حقوق کے مطالبہ پر شہید کیا ہےکہ بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر تسلط جموں و کشمیر میں 5 اگست 2019 سے اب تک بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں 780 سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔گزشتہ سات دہائیوں سے جاری بھارتی جبر کشمیری عوام کی خواہش کو توڑنے میں ناکام رہا ہے جو حق خودارادیت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول تک بھارتی جبر کے خلاف ان کی منصفانہ جدوجہد میں حمایت جاری رکھے گا۔بھارت نے ہمیشہ کشمیرکے مسئلے کو دبانے کی کوشش کی، بھارتی ظلم وستم کے باوجود کشمیری اپنے موقف سے نہیں ہٹے، پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے، کشمیرکی آزادی تک پاکستان غیرمشروط حمایت جاری رکھےگا۔ بھارت کشمیریوں سے کیے گئے وعدے پورے کرے،5 اگست 2019ء میں فاشسٹ نظریہ کے تحت مودی حکومت نے صدارتی احکامات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کے 1954ء کے آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مخصوص تشخص کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کیلئے غیر قانونی و حقِ خود ارادیت کے منافی اقدام اٹھایا جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی کو کچلنا اور اپنے نوآبادیاتی نظام کو آئینی چھاپ لگانا تھا-اس عمل کے بعد کشمیری عوام کے علاوہ بھارتی لوگوں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف زمین و کاروبار کا حق حاصل ہوا بلکہ استصواب رائے کی صورت میں بھارت کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع بھی مل گیا-عوامی مخالفت کے خوف سے کئی کشمیری رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا گیا اور مقبوضہ کشمیر میں لامحدود مدت کیلئے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا – جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہو گئے- عالمی برادری نے اس اقدام کی مذمت کی جبکہ پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کے سفارتی و تجارتی بائیکاٹ کا اعلان کردیا-
دنیا ہر سال یوم استحصال; 5 اگست 2019 کے طور پر مناتی ہے اس کا مقصد عالمی قوانین کے تحت ترکِ نو آبادیات کی تحریکوں کو ان کا حق دلوانا ہے – اقوام متحدہ نے اپنے چارٹر کے آرٹیکل 1 میں حقِ خودارادیت سے لوگوں کو اپنا مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے- مگر صرف قوانین سے کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہوئی کیونکہ عالمی برادری کی سیاسی رضامندی کے بغیر ایساممکن نہیں- اس کی مثال تقسیم سوڈان اور ایسٹ تیمور کی تخلیق ہے-
جبکہ کشمیر و فلسطین آج بھی عالمی ضمیرو نظام پر ایک سوالیہ نشان ہیں – 5 جنوری2022ء ایک بار پھر عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر کی غیر انسانی صورتحال کی جھلک دکھا گیا کہ جہاں دنیا میں کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے تنگ لوگوں نے مظاہروں کے ذریعے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا وہیں بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی و نسل پرستانہ لاک ڈاؤن کو کووڈ 19 کا لیبل لگا کر کوئی رعایت نہیں دی اور لوگ ابھی بھی سخت سماجی و سیاسی پابندیوں میں زندگی گزار رہے ہیں-
تاریخ ِکشمیر لاک ڈاؤن انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بدترین تاریخ ہے جو آج تک کسی بھی جمہوریت میں دیکھی گئی ہے- جابر بھارتی حکومتی فورسز نے اگست 2019 ءمیں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 780 سے زائد کشمیریوں کو بے دردی سے قتل کیا ہے جن میں صرف گزشتہ سال (2021ء ) شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعد اد 210 ہے-
اس کے علاوہ سیاسی نمائندگی، تعلیم، آزادیٔ اظہار، زندگی کا حق جیسے بنیادی حقوق کشمیری مسلمانوں کیلئے شاید ناممکن ہیں مگر حیف کہ عالمی جمہوری علمبرداد اپنے سیاسی و معاشی مفادات کی بدولت بھارت کی انسان دشمن پالیسیوں اور کالے قوانین پر چپ سادھے بیٹھے ہیں- اقوام متحدہ کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ کے بعد بھی بھارت کو روکنے اور کشمیریوں کے حق میں عالمی برادری کی خاموشی مجرمانہ غفلت نہیں تو اور کیا ہے-
پاکستان کی حکومت مسئلہ کشمیر کے لیے او آئی سی کے پلیٹ فارم کو استعمال کر کے مسلمان ممالک کو مقبوضہ کشمیر پر متحد کر کے دباؤ بڑھا سکتا ہے- عالمی برادری و ادارے جذبہ انسانی کے تحت مقبوضہ کشمیر میں امداد و عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کرنے کی کوشش کریں- اگر اسرائیل کے حصار میں موجود فلسطینی علاقوں میں امداد پہنچ سکتی ہے تو بھارت کے قبضہ میں کشمیر میں امداد کیوں نہیں پہنچ سکتی؟
حکومت ِ پاکستان کو سفارت کاری مشن کے ذریعے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں اور آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے مذموم مقاصد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے- پاکستان سلامتی کونسل میں ایک کمیشن کی تشکیل کی درخواست دے سکتا ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کو دیکھے، روکے اوراس طرح کے بھارت کو دیگر اوچے ہتھکنڈوں سے باز رکھے- اس سلسلے میں پاکستانی میڈیا ہاوسسز، تھنک ٹینکس، یونیورسٹیز اہم کردار ادا کر سکتے ہیں -اسی طرح نوجوان سوشل میڈیا کو استعمال کر کے دنیا کے اندر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کریں- مقبوضہ کشمیر ایک جہد ِ مسلسل ہے جس کو مخصوص دنوں سے منسوب کر کے صرف آواز بلند نہیں کی جانی چاہئے بلکہ ہر وقت، ہر لمحے، ہر گھڑی کشمیر کی آواز بن کر دنیا کے ایوانوں میں گونجنے کی ضرورت ہے-یاد رہے کہ بھارت نے 1947 میں جموں وکشمیر پر غیرقانونی تسلط قائم کرکے کشمیری عوام کو محکوم بنایا ہوا ہے اوراقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق خودارادیت دینے سے گریزاں ہے ،
کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبانے کیلئے انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنایا گیا،
76 برس کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بھارت کی پورے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل اور بے دریغ پامالیاں جاری ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کرہ ارض کا وہ واحد خطہ ہے جہاں محض چند ہزار مربع میل علاقے میں آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی قابض فوجی تعینات ہیں۔ بھارت سرزمین کشمیر پر جبری اور ناجائز فوجی تسلط کو جاری رکھنے کےلئے اپنے تمام وسائل اور ہتھکنڈوں کو استعمال کررہا ہے۔
5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیرکوخصوصی حیثیت دینے والے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تیزی سے تبدیل کررہا ہے، اس مقصد کے لئے مقبوضہ علاقے میں بھارتی قوانین کا اطلاق بھی عمل میں لایا گیا ہے۔
کشمیری عوام اور پاکستان نے کبھی بھی بھارتی بالادستی قبول نہیں کی ہے۔ پاکستان نے کشمیریوں کی ہمیشہ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی کی گئی ہے۔ ان سارے اقدامات کا مقصد ریاست جموں وکشمیر کی مسلم شناخت کو ختم اور آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم کرنا ہے تاکہ مستقبل میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم کی جائے۔
بھارتی حکمرانوں نے اپنے آئین کی دفعہ 370 کی موجودگی کو ماضی میں کشمیر پر اپنے ناجائز اور غیر قانونی فوجی تسلط کو جواز کے طور پر ہمیشہ پیش کیا اور اس کے خاتمہ کے بعد اب بھارت کا یہ جواز بھی ختم ہوگیا ہے۔ بھارتی آئین میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شہریت کے حق سے متعلق دفعہ 35۔اے کو بھی ختم کیا گیا، ریاست کی شہریت سے متعلق یہ معاملہ تنازعہ کشمیر سے پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ اس قانون کی رو سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی حدود سے باہر کسی بھی علاقے کا شہری جموں وکشمیرکا شہری نہیں بن سکتا اور نہ زمین وجائیداد کا مالک بن سکتا تھا۔ یہ قوانین1927 سے کشمیر میں نافذ العمل تھے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیر سے متعلق بھارتی آئین میں موجود ان تمام دفعات اور شقوں کو ختم کرنے کے درپے تھی جو مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں سے ایک الگ مقام دیتی تھی۔ کشمیریوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اب انہیں اقلیت میں بدلنے کے لئے مزید اقدامات کئے جائیں گے اور وہ فلسطینیوں کی طرح اپنے خطہ ارض میں اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گے، بھارت سے لاکھوں ہندﺅں کو سرکاری سرپرستی میں کشمیر میں بسانے کے اقدامات کئے جارہے ہیں۔ مودی حکومت کے کشمیر کے حوالے سے نئے اقدامات سے بھارت کے ہندوکشمیریوں کے وسائل، زمینوں اور روزگار پر قابض ہوجائیں گے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کے تحت کشمیر کو دیگر بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں الگ حیثیت حاصل تھی۔ اس کے تحت بھارتی پارلیمان کے بنائے گئے قوانین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کا مقبوضہ جموں و کشمیر پر اطلاق نہیں ہوسکتا تھا۔ ان فیصلوں کے کشمیر میں نفاذ کیلئے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی منظوری لازمی تھی اور یہ شرط اب ختم ہوگئی ہے اور بی جے پی حکومت کسی رکاوٹ کے بغیر اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بھارت کے 2019کے غیر قانونی اقدام کے بعد اب بھارت میں مقیم ہندو مقبوضہ کشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کو علاوہ نوکری اور شہریت بھی حاصل کرسکیں گے۔
بھارتی حکومت نے 18مئی 2020 کو کشمیر کے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے اجراءسے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس نئے قانون کے بعد اب لاکھوں بھارتی بھی مقبوضہ کشمیر کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں۔ ان میں لاکھوں سابق اور حاضر سروس فوجی اور ان کے بچے بھی شامل ہیں، جو طویل عرصہ تک کشمیر میں تعینات اور زیر تعلیم رہے ہیں۔ بھارت اس نئی حکمت علی کے ذریعے کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرسکے گا، اس غیرقانونی اقدام کے نتیجے میں کشمیرکی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوگا۔
کشمیریوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اب لاکھوں کی تعداد میں غیرمسلم بھارتی باشندے مقبوضہ علاقہ میں آباد ہوجائیں گے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق کشمیر ایک تصفیہ طلب مسئلہ ہے۔ ان قراردادوں کو نہ صرف بھارت بلکہ عالمی برادری نے بھی تسلیم کیا ہے۔ تقسیم ہند کے اصولوں اور تاریخی حقائق کی بنیاد پر کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا جسے برطانوی سامراج نے ہندو رہنمائو ں کے ساتھ ساز باز کرکے زبردستی بھارت کے ساتھ شامل کرلیا۔ کشمیریوں کا یہ مطالبہ ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کے فیصلہ کا موقع ملنا چاہئے۔ برسر جدوجہد کشمیریوں کو ان کے مطالبہ آزادی سے دستبردار کرانے کے لئے بھارتی حکومت ایک منصوبہ بند طریقے پر کشمیری عوام کا قتل عام کر رہی ہے، اس کا مقصد مزاحمتی جدوجہد کو بھارت کے سامنے جھکنے پر مجبور کرنا ہے۔ بھارتی حکومت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی اورحق خودارادیت تسلیم کرنے کے بجائے اسے امن و امان اور اندرونی سلامتی کا مسئلہ قرار دے رہی ہے، کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد کسی کے زیر اثر یا تابع نہیں ہے بلکہ وہ بھارت کے غیر قانونی فوجی تسلط کے خلاف اپنی جدوجہد خود چلارہے ہیں، جیسا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود سب سے پرانا تنازعہ ہے، کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں اس مسئلہ کے متنازعہ ہونے کی بڑی دلیل ہے۔کشمیری عوام کا یہ عزم صمیم ہے کہ وہ بھارت کے گھنائونے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور کشمیری عوام اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق اپنی جدوجہد آزادی کو منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے۔